کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 59
تباہی و بربادی میں زیادتی کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی مختصر اور جامع الفاظ میں اس قطعی ، حتمی اورٹھوس حقیقت کو اُمت کے لیے بیان فرما دیا ہے۔ حضرات ائمہ احمد،ابن ماجہ اور حاکم نے عبداللہ بن حبیب کے حوالے سے ان کے چچا رضی اللہ عنہ [1]سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ہم ایک مجلس میں تھے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے سر [مبارک]پر پانی [ کے استعمال] کا اثر باقی تھا ۔ ہم میں سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’آج ہم آپ کو خوش طبع دیکھ رہے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، الحمد للہ۔‘‘ پھر لوگ آسودگی کے تذکرہ میں لگ گئے ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لَا بَأْسَ بِالْغِنَی لِمَنْ اتَّقَی ، وَالصِّحَۃُ لِمَنْ اتَّقَی خَیْرٌ مِنَ الْغِنَی ، وَطِیْبُ النَّفْسِ مِنَ الْغِنَی۔‘‘ [2] [متقی کے لیے تونگری میں کچھ مضائقہ نہیں، اور متقی شخص کے لیے صحت آسودگی سے بہترہے اور خوش طبعی تونگری میں سے ہے۔] (۱۳) صرف متقیوں کو کھانا کھلانے کا حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تقویٰ کے مقام و مرتبہ پر دلالت کناں باتوں میں سے ایک یہ ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو اس بات کی تاکید فرمائی ہے ، کہ وہ اپنا کھانا صرف متقی کو کھلائیں۔ حضرات ائمہ احمد، ابو داود،
[1] ان کا اسم گرامی یسار بن عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین ۲؍۳)۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۲۳۱۵۸، ۳۸؍۲۲۸۔۲۲۹؛ وسنن ابن ماجہ ، أبواب التجارات، باب الحث علی المکاسب، رقم الحدیث ۲۱۵۷، ۲؍۵؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲؍۳۔ الفاظِ حدیث سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ اس کی اسناد کو امام حاکم نے [ صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍۳؛ والتلخیص ۲؍۳)؛ حافظ بوصیری نے اس کی [اسناد کو صحیح اور راویان کو ثقہ] کہا ہے؛ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ ۲؍۵ ؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۲؍۶؛ وسلسلسۃ الأحادیث الصحیحۃ ۱؍۱۲۵۔۱۲۶)۔