کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 53
کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دوری ہی میں زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ [1] ۴: حضرت الحسن نے بھی ایسے ہی بیان کیا ہے۔ [2] تنبیہ: مذکورہ بالا اقوال کا قطعاًیہ معنی نہیں ، کہ ایسا شخص نماز ادا کرنا چھوڑ دے ، بلکہ اس کو چاہیے ، کہ وہ اپنی نمازوں کا بنظر غائر جائزہ لے۔ ان میں موجود خلل کی اصلاح اور نقص کی تلافی کرے۔ ج: اللہ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [3] [اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے ، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔] علامہ رازی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:’’آیت کا معنی یہ ہو گا: میں نے تم پر روزے فرض کیے ہیں ، تاکہ تم ان کے ساتھ متقی بن جاؤ ، جن کی میں نے اپنی کتاب میں تعریف کی ہے۔‘‘ [4] شیخ ابن عاشور نے لکھا ہے: ارشاد تعالیٰ : {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} :روزہ کی حکمت اور اس کی مشروعیت کی غرض و غایت کو بیان کرتا ہے۔ [5] شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے: پھر اللہ تعالیٰ نے فرضیت روزہ کی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} بلاشبہ روزہ تقویٰ کے [حصول کے] سب سے بڑے اسبا ب میں سے ہے ، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لانا اور ان کی ممنوعہ بات کو چھوڑنا ہے۔ [6]
[1] تفسیر الطبري ۲۰؍۹۹۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲۰؍۹۹۔ [3] سورۃ البقرۃ؍الآیۃ ۱۸۳۔ [4] التفسیر الکبیر ۵؍۷۰۔ [5] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر والتنویر ۲؍۱۵۸۔ [6] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۷۵۔