کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 51
سے تقویٰ پہنچتا ہے ، یعنی جس چیز سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ، وہ اسی کو قبول فرماتے ہیں، اسی کو اپنی طرف اُٹھاتے ہیں، اس کو سنتے ہیں اور اس کی بنا پر ثواب عطا فرماتے ہیں۔ [1]
(۸)
تقویٰ مقصودِ عبادت
جن و انس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہے اور عبادت کا مقصود عبادت گزاروں کو متقی بنانا ہے۔ تقویٰ کی اہمیت کے بارے میں اس کے سو ا کوئی اور بات نہ بھی ہوتی ، تو تنہا یہ ایک بات ہی تقویٰ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ ذیل میں اس بارے میں تین دلائل ملاحظہ فرمائیے:
ا: اللہ عزوجل نے فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [2]
[اے لوگو! تم اپنے رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا فرمایا ، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔]
شیخ ابن عاشور اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:معنی یہ ہے ، کہ تم اپنے رب کی عبادت اس اُمید کے ساتھ کرو ، کہ تم کامل متقی لوگوں میں سے ہو جاؤ گے ، کیونکہ بلاشبہ عبادت کا مقصود تقویٰ ہی ہے ۔ اسی لیے حکمِ عبادت کرتے وقت ، عابد کے عبادت کرتے ہوئے ، یا تخلیق و تکوین کا ارادہ کرتے وقت تقویٰ کے حصول کی اُمید رکھنے کا فائدہ واضح ہے۔[3]
ب: اللہ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا:
{وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ إِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ} [4]
[اور نماز کو قائم کیجیے۔ بلاشبہ نماز بے حیائی اور بُرائی سے روکتی ہے۔]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۲؍۶۵؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۶؍۱۰۷۔۱۰۸؛ وفتح القدیر ۳؍۶۵۱؛ وتفسیر السعدي ۵۷۹۔
[2] سورۃ البقرۃ؍ الآیۃ ۲۱۔
[3] ملاحظہ ہو:تفسیر التحریر والتنویر ۱؍۳۳۰۔
[4] سورۃ العنکبوت؍جزء من الآیۃ ۴۵۔