کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 50
ا: حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے، جس کی قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ، اس ہی کے قول کو اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ ذکر فرمایا ہے:
{إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ} [1]
[اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتے ہیں۔]
قاضی بیضاوی نے بیان کیا ہے ، کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ، کہ نیکی صرف ایمان اور تقویٰ والے کی قبول ہوتی ہے۔ [2]
علامہ شوکانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ [إِنَّمَا] حصر کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے ، کہ اللہ تعالیٰ قربانی متقیوں ہی کی قبول فرماتے ہیں، ان کے علاوہ دوسروں کی قبول نہیں کرتے۔ [3]
اسی آیت کریمہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اگر مجھے اس بات کا یقین ہو جائے، کہ اللہ تعالیٰ نے میری ایک نماز کو قبول کر لیا ہے ، تو وہ مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ، سے زیادہ عزیز ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ} [4]
ب: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ} [5]
[اللہ تعالیٰ کو ان [قربانیوں] کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون، لیکن انہیں تو تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔]
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : ’’معنی یہ ہے کہ انہیں ہر گز نہیں پہنچتا۔‘‘ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ ان کی طرف ہر گز نہیں چڑھتا۔‘‘
ابن عیسیٰ نے بیان کیا:وہ ان کے گوشت اور خون قبول نہیں فرماتے ، ان تک تو تمہاری جانب
[1] سورۃ المائدۃ؍ جزء من الآیۃ۲۷۔
[2] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱؍۲۶۳۔
[3] فتح القدیر ۲؍۴۶؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۳؍۲۶۔
[4] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲؍۴۹۔
[5] سورۃالحج؍ جزء من الآیۃ ۳۷۔