کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 48
’’ سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِيْ سَفَرِنَا ھَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضیٰ۔ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھَذَا، وَاطْوِعَنَّا بُعْدَہٗ۔ اَللّٰھُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ ، وَالْخَلِیْفَۃُ فِي الْأَھْلِ وَالْمَالِ۔‘‘ [1] [پاک ہے وہ ذات ، جس نے اس کو ہمارے لیے مسخر کر دیا اور اس کو قابو کرنے کی ہم میں طاقت نہ تھی۔ اے اللہ! ہم آپ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور ایسے عمل کا جس سے آپ راضی ہو جائیں۔ اے اللہ! ہمار ے لیے اس سفر کو آسان فرمائیے اور اس کے فاصلے کو ہمارے لیے سمیٹ دیجیے۔ اے اللہ! آپ سفر میں ساتھی اور اہل و مال میں جانشین ہیں۔ اے اللہ! بلاشبہ میں آپ سے مشقتِ سفر ، منظر کی [بُری] تبدیلی اور مال و اہل کے بُرے تغیر سے پناہ طلب کرتا ہوں۔] ۴: امام احمد نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے ، اور کہا کرتے تھے: …اور اس میں سے [ یہ دعا بھی تھی] ’’اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ عِیْشَۃً تَقِیَّۃً ، وَمِیْتَۃً سَوِیَّۃً، وَمَرَدًّا غَیْرَ مُخْزٍ۔‘‘ [2] [اے اللہ! بلاشبہ میں آپ سے تقویٰ والی زندگی ، ٹھیک موت ، اور خالی ازرسوائی پلٹنے کا سوال کرتا ہوں۔]
[1] صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب ما یقول إذا رکب إلی سفر الحج وغیرہ، جزء من رقم الحدیث ۴۲۵۔ (۱۳۴۲)، ۲؍۹۷۸۔ [2] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۹۴۰۲، ۳۲؍۱۴۴۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس حدیث کو [حسن لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳۲؍۱۴۴۔۱۴۵)۔