کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 45
انہیں صدقات جمع کرنے کے لیے روانہ کیا، اور فرمایا: ’’ یا أَبَا الْوَلِیْد! اتَّقِ اللّٰہ! لَا تَأتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِبَعِیْرٍ تَحْمِلُہُ لَہُ رُغَائٌ ، أَوْ بَقَرَۃٌ لَہُ خُوَار، أَوْ شَاۃٌ لَّہُ تُغَائٌ۔‘‘ [1] [اے ابو الولید! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو! ایسا نہ ہو ، کہ قیامت کے دن بلبلاتے ہوئے اونٹ، یا ڈکارتی ہوئی گائے ، یا ممیاتی ہوئی بکری کو اُٹھاتے ہوئے آؤ ۔‘‘] ۹: امام احمد اور امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ ایک شخص نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں، مجھے وصیت فرمائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالتَّکْبِیْرِ عَلَی کُلِّ شَرَفٍ۔‘‘ [2] [اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو لازم کرو اور ہر اونچائی پر [اللہ اکبر] کہو۔] ۱۰: امام احمد نے حضرت حرملہ عنبری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا:’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! مجھے وصیت فرمائیے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِتَّقِ اللّٰہَ ! وَإِذَا کُنْتَ فِيْ مَجْلِسٍ فَقُمْتَ مِنْہُ ، فَسَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا یُعجِبُکَ فَآتِہِ ، وَإِذَا سَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا تَکْرَہُ ، فَاتْرُکْہُ۔‘‘ [3] [اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جب تم کسی مجلس میں ہو اور اس سے اُٹھ کر چلے جاؤ ، پھر انہیں وہ بات کہتے ہوئے سنو ، جو تمہیں پسند ہو، تو اس [مجلس] میں آجاؤ ، اور اگر انہیں
[1] منقول از: الترغیب والترھیب، کتاب الصدقات ، الترغیب في العمل علی الصدقۃ بالتقوی، رقم الحدیث ۷، ۱؍۵۱۲۔ شیخ البانی نے اس کو[صحیح] قرار دیاہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترھیب ۱؍۴۸۰)۔ [2] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۰۱۶۵، ۱۶؍۱۴۱؛ وجامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب منہ ، جزء من رقم الحدیث ۳۶۷۲، ۹؍۲۸۶۔ الفاظ حدیث جامع الترمذي کے ہیں۔ اس کو امام ترمذی امام بغوی ، شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق۹؍۲۸۶؛ وشرح السنۃ ۵؍۱۴۳؛ وصحیح سنن الترمذي ۳؍۱۵۶؛وھامش المسند ۱۶؍۱۴۱)۔ [3] المسند، رقم الحدیث ۱۸۷۲، ۳۱؍۱۶۔ حافظ ہیثمی نے اس کے متعلق تحریر کیا ہے:’’ اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راویان ثقہ ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد ۴؍۲۱۶)۔