کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 29
۵: علامہ زمخشری[المتَّقِيْ] کی تعریف ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’شریعت میں اس سے مراد وہ شخص ہے ، جو کہ اپنے نفس کو سزا کامستحق ٹھہرانے والی چیز سے بچاتا ہے ، اس کا تعلق خواہ کسی کام کے کرنے سے ہو، یا چھوڑنے سے۔‘ ‘[1]
۶: امام نووی نے تقویٰ کی تعریف کرتے ہوئے قلم بند کیا ہے: ’’ان [اللہ تعالیٰ] کے امر و نہی کی پابندی کرنا، اور اس کا معنی [اللہ] سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب سے بچنا ہے۔‘‘ [2]
۷: شیخ ابن عاشور رقم طراز ہیں:’’شرعی تقویٰ: اوامر کو بجا لانا ، کبائر میں سے منہیات سے اجتناب کرنا اور ظاہری اور باطنی طور پر صغائر کے ارتکاب میں لاپرواہی نہ کرنا ہے۔ یعنی [ہر]اس [کام]سے بچنا ہے ، جس کا کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور سزا کا سبب بنے۔‘‘ [3]
پس جو شخص معصیتِ الٰہی سے گریز نہیں کرتا، گناہ نہیں چھوڑتا اور اپنا دامن ان سے نہیں بچاتا، وہ متقی نہیں۔
اسی طرح جو شخص اپنی زبان سے وہ بولتا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں، اپنی آنکھوں سے وہ دیکھتا ہے ، جس کو انہوںنے حرام قرار دیا ہے ، اپنے کانوں سے وہ سنتا ہے ، جس سے وہ نفرت کرتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے وہ پکڑتا ہے ،جس کے پکڑنے پر وہ ناخوش ہوتے ہیں، اپنے قدموں کو اس طرف حرکت دیتا ہے ، جس کو وہ اچھا نہیں سمجھتے یا وہ چیز کھاتا ہے ، جس پر انہوں نے حرام کا حکم لگایا ہے ، تو ایسا شخص یقینا تقویٰ والوں میں سے نہیں ہے۔
جس شخص نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور سزا کا مستحق بنایا ، تو یقینا اس نے خود کو متقی لوگوں کی جماعت سے دور کر دیا۔ منہیات کا ارتکاب کرنے والے ، اوامر کی ادائیگی سے پیچھے رہنے والے کا تقویٰ سے کیونکر تعلق ہو سکتا ہے؟
جو شخص وہاں پایا گیا ، جہاں ہونے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ، اور وہاں نہ ہوا ، جہاں اس کو موجود رہنے کا حکم دیا گیا ہے، تو ایسے شخص کو متقین سے اپنی نسبت کرنا کیسے زیب دے سکتا ہے؟
[1] الکشاف ۱؍۱۱۹؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱؍۱۶؛ وکتاب التعریفات ص ۶۸؛ وتفسیر أبي السعود ۱؍۲۷۔۲۸۔
[2] تحریر ألفاظ التنبیہ ص ۳۲۲۔
[3] تفسیر التحریر والتنویر ۱؍۲۲۶۔