کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 28
انہوں نے دریافت کیا: ’’تو آپ نے کیا کیا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’میں آستین چڑھا لیتا ہوں اور محتاط ہو جاتا ہوں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’سو یہی تقویٰ ہے۔‘‘ [1] ۲: علامہ قرطبی نے لکھا ہے ’’ابن المعتز نے یہی معنی لے کر اس کو شعروں میں بیان کیا ہے ، انہوں نے کہا: خَلِّ الذُّنُوْبَ صَغِیْرَھَا وَکَبِیْرَھَا ذَاکَ التُّقَی وَاصْنَعْ کَمَاشٍ فَوْقَ أَرْ ضِ الشَّوْکِ یَحْذَرُ مَا یَرَی لَا تَحْقِرَنَّ صَغِیْرَۃً إِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الْحِصَی‘‘[2] [چھوٹے ، بڑے گناہوں کو چھوڑ دو ، یہ تقویٰ ہے۔ کانٹوں والی زمین پر چلنے والے کی طرح کرو ، جو اس سے بچتا ہے ، جو کہ وہ دیکھتا ہے۔ صغیرہ [گناہ] کو معمولی نہ سمجھو ، بلاشبہ پہاڑ کنکریوں سے [بنتے] ہیں۔] ۳: امام طبری کی رائے میں[اَلْمُتَّقِیْنَ] [3]کی بہترین تفسیر یہ ہے ، کہ بلاشبہ وہ ، وہ لوگ ہیں، جو کہ منہیات کے ارتکاب میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے، ان کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں، اور تقویٰ اختیار کرتے ہوئے، ان کے احکامات کو بجا لا کر ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ [4] ۴: علامہ راغب اصفہانی نے تحریر کیا ہے: ’’عرف شریعت میں تقویٰ سے مراد : گناہ گار کرنے والی چیز سے نفس کو بچانا ہے اور یہ ممنوعہ باتوں کو چھوڑنے سے ہے اور اس کی تکمیل بعض جائز چیزوں کو ترک کرنے سے ہوتی ہے۔‘‘[5]
[1] تفسیر القرطبي۱؍۱۶۱۔۱۶۲۔ امام ابن ابی الدنیا نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کا اسی جیسا مفہوم نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۱؍۵۳)۔ [2] تفسیر القرطبي ۱؍۱۶۳۔ [3] [المتقین] تقویٰ والے لوگ۔ [4] ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۱؍۳۳۳۔۳۳۴۔ (ط: دار المعارف بمصر)۔ [5] المفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’وقی‘‘ ، ص۵۳۰۔۵۳۱۔