کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 27
مبحث اوّل
تقویٰ کا مفہوم
ا۔لغوی معنی:
علمائے اُمت نے تقویٰ کے لغوی معنی کو خوب واضح کیا ہے۔ ذیل میں تین علماء کے اقوال توفیق الٰہی سے نقل کیے جا رہے ہیں:
۱: علامہ فیروز آبادی نے تحریر کیا ہے: ’’وَقَاہُ ، وُقْیًا، وَوِقَایَۃٌ ، وَوَاقِیَۃً ‘‘ اس کو بچایا اور اسم [تقویٰ ]ہے۔ [1]
۲: علامہ زمخشری رقم طراز ہیں: ’’ [الْمُتَّقِيْ] [تقویٰ اختیار کرنے والا] [وَقَاہُ فَاتَّقَی] [اس کو بچایا ، سو وہ بچ گیا]سے اسم فاعل ہے اور [الْوِقَایَۃ] بہت زیادہ بچاؤ کرنا ہے۔ [2]
۳: علامہ راغب اصفہانی نے قلم بند کیا ہے: ’’[التَّقْوٰی]کے معنی کے بارے میں تحقیق یہ ہے ، کہ نفس کو اس چیز سے بچانا، جس سے اس کو اندیشہ ہو۔‘‘ [3]
ب۔ شرعی معنی:
علمائے اُمت نے تقویٰ کے شرعی معنی کی بھی خوب وضاحت کی ہے۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں چند ایک عبارات پیش کی جارہی ہیں:
۱: علامہ قرطبی نے نقل کیا ہے، کہ حضرت عمر بن الخطاب نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہما سے تقویٰ کے بارے میں استفسار کیا ، تو انہوں نے کہا: ’’کیا آپ کبھی خار دار راستے میں چلے ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘
[1] ملاحظہ ہو: القاموس المحیط، مادۃ ’’وقی‘‘ ، ۴؍۴۰۳۔ نیز ملاحظہ ہو: لسان العرب المحیط، مادۃ ’’وقی‘‘ ، ۳؍۹۷۱۔
[2] الکشاف ۱؍۱۹؛ نیز ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۱؍۲۰؛ وتفسیر البیضاوي ۱؍۱۶؛ و تفسیر أبي السعود ۱؍۲۷؛ وروح المعاني ۱؍۱۰۸۔
[3] المفردات في غریب القرآن ، مادۃ ’’وقی ‘‘ ، ص ۵۳۰۔