کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 114
اساس ہے۔[1]
(۹)
عفو در گذر کرنا
بندے کو تقویٰ سے قریب کرنے والی ایک بات عفو و در گذر کرنا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:
{وَ أَنْ تَعْفُوْٓا أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی} [2]
[اور تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔]
شیخ سعدی نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے: ’’پھر اللہ تعالیٰ نے عفو و در گذر سے کام لینے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا، کہ معاف کرنے والا تقویٰ سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، کیونکہ ایسا کرنا احسان ہے ، جو کہ شرحِ صدر کا موجب ہے۔‘‘ [3]
(۱۰) قصاص
اللہ کریم نے قصاص کو فرض کیا اور اس کو تقویٰ کا سبب بنایا۔ اللہ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا:
{وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰأُو لِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}[4]
[اے عقل مندو! اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔]
قاضی ابن عطیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: {تَتَّقُوْن} : اس کا معنی یہ ہے ، کہ تم قتل کرنے سے اجتناب کر کے قصاص سے بچ جاؤ ۔ پھر یہی بات تقویٰ کے دیگر کاموں کے لیے سبب بن جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت گزاری کا بدلہ مزید تابعداری کی توفیق کے ساتھ فرماتے ہیں۔ [5]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۳؍۱۲۔
[2] سورۃ البقرۃ؍ جزء من الآیۃ ۲۳۷۔
[3] تفسیر السعدي ص ۹۷؛ نیز ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۶؍۱۴۵۔
[4] سورۃ البقرۃ؍ الآیۃ ۱۷۹۔
[5] ملاحظہ ہو: المحرر الوجیز ۲؍۶۵ ؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۲؍۲۵۶۔