کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 112
کہ معنی یہ ہو: بلاشبہ تم جب صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے ، تو اس کی وجہ سے ان کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے ، کیونکہ تم نے اس سے بچاؤ کا سبب اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے، کہ معنی یہ ہو: جب تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے ، تو تم تقویٰ سے آراستہ و پیراستہ ہو کر متقیوں میں شامل ہو جاؤ گے۔
دونوں ہی معانی درست ہیں اور وہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ صحیح معنوں میں عبادت کرنے والا متقیوں میں سے ہو جاتا ہے اور جو کوئی متقیوں میں سے ہو گیا ، اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضی سے نجات میسر آجاتی ہے۔‘‘[1]
سید قطب نے تحریر کیا ہے: {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} :شاید کہ تم انسانیت کی اس منتخب شدہ شکل میں منتقل ہو جاؤ ، جو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور ان کے لیے تقویٰ اختیار کرنے والوں کی شکل ہے۔ [2]
(۷)
روزے رکھنا
روزوں کی عظیم ترین برکات میں سے ایک یہ ہے ، کہ وہ روزہ داروں کو متقی بنانے کا سبب بنتے ہیں۔اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [3]
[اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے ، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔]
شیخ سعدی اپنی تفسیر میں قلم بند کرتے ہیں:’’ {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [تاکہ تم متقی بن جاؤ]، کیونکہ روزے تقویٰ کے بڑے اسباب میں سے ہیں ، کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لانا اور ان کی منہیات کو ترک کرنا ہے۔ [4]
[1] تفسیر السعدي ص ۲۷۔
[2] ملاحظہ ہو: في ظلال القرآن ۱؍۴۷۔
[3] سورۃ البقرۃ؍ الآیۃ ۱۸۳۔
[4] تفسیر السعدي ص۷۵۔سورۃ البقرۃ؍ الآیۃ ۱۸۳۔