کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 100
[ یہ ہے وہ جنت، جس کا ہم اپنے بندوں میں سے ان لوگوں کو وارث بناتے ہیں، جو متقی ہوں] جنت کا وارث بنانے کا معنی یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان پر یہ انعام فرمائیں گے، کہ وہ کامل ترین نعمتوں اور انتہائی مسرتوں والی جنتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے: مراد یہ ہے کہ جس طرح ہم فوت ہونے والے کا مال وارث کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور اس کو اس مال سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کردیتے ہیں، اسی طرح ہم متقی کو اس کا صلہ دیں گے اور اس سے بہرہ ور ہونے کا موقع نصیب کریں گے۔ وارث بنانے سے مقصود یہ ہے، کہ متقی کا صلہ اس کے پاس باقی رہے گا۔ بیچنے، ہبہ کرنے وغیرہ الفاظ کی بجائے وارث بنانے کے الفاظ استعمال کرنے کی حکمت یہ ہے، کہ وراثت میں انتقالِ ملکیت کی کامل ترین صورت ہے، کیونکہ اس میں فسخ کرنا، واپس لینا یا باطل کرنا ممکن نہیں۔ [1] ب: اللہ عزوجل نے فرمایا: {وَسَارِعُوْٓا إِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ} [2] [ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔] ج: اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: {لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْأَ بْرَارِ} [3] [ لیکن جن لوگوں نے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا، انہی کے لیے جنتیں ہیں، کہ ان کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمانی ہے۔
[1] ملاحظہ ہو: روح المعاني ۱۶؍ ۱۱۳؛ نیز ملاحظہ ہو: الکشاف ۲؍۵۱۶؛ وتفسیر البیضاوي ۲؍۳۵؛ وتفسیر أبي السعود ۵؍۲۷۳؛ وتفسیر السعدي ص ۵۳۱ ؛ وأضواء البیان ۴؍۴۱؛ وتفسیر المراغي ۱۶؍۶۹۔۷۰۔ [2] سورۃ آل عمران؍ الآیۃ ۱۳۳۔ [3] سورۃ آل عمران؍ الآیۃ ۱۹۸۔