کتاب: تقلید کی حقیقت - صفحہ 50
﴿لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلافًا کَثِیْرَا﴾ (النساء :۸۲)
ترجمہ:اگر یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور یہ لوگ اس کے اندر بہت سارے اختلافات پاتے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَ تْھُمُ الْبَیَّنَاتُ﴾ (آل عمران ۱۰۵)
ترجمہ:’’ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا‘‘
اس جگہ پر کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اس طرح کے اختلافات تو صحابہ کرام کے درمیان بھی تھے۔تو پھر وعید ان کو بھی شامل ہے؟
تو ہم عرض کریں گے کہ کوئی بھی صحابی ایسے متعصب نہیں تھے کہ ان کے سامنے قرآن و حدیث پیش کرنے کے بعد بھی وہ اپنی رائے پر ڈٹے رہیں بلکہ اپنی رائے کو چھوڑ کر قرآن و حدیث سے چمٹ جاتے جبکہ مقلدین اس کے بر خلاف ہیں بلکہ اپنی رائے کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں بھی تحریف کر ڈالتے ہیں جیسے کہ پیچھے مثالیں گزر چکی ہیں۔
اس لئے صحابہ کرام اس وعید میں داخل نہیں ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مقلدین کا یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے کہ ہمارے مذاہب کے درمیان حلا ل و حرام، جائز و ناجائز کا اختلاف نہیں ہے بلکہ افضل و غیر افضل کا اختلاف ہے ۔ پھر آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ یہ اختلافات حرام و حلال میں ہے یا افضل و غیر افضل میں۔ یاد رہے اسلام کے اندر بالا تفاق تمام علماء کے نزدیک ایک چیز یا تو حلال ہو گی یا حرام ہو گی یا ناجائز ہو گی یا جائز ہوگی یا تو پاک یا ناپاک دونوں حکم ایک ہی چیز میں جمع ہونا ناممکن اور محال ہے ۔ جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے (الأقوال کثیرۃ والحق فی واحد) کہ اقوال بہت سارے ہیں لیکن حق صرف ایک کے اندر ہے۔ کچھ مثالیں طہارت کے اندر دیکھ لیں۔
(ألف) حنفی مذہب
۱۔ وضوء میں نیت کی ضرورت نہیں۔ (۱ ۔ ۲)
۲۔ بغیر ترتیب کے وضوء ہو جائے گا۔ (۱ ۔ ۲)