کتاب: تقلید کی حقیقت - صفحہ 15
نہیں بن سکتے۔ ان آیات کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کریں کہ اب بھی تقلید کے ناجائز ہونے میں کوئی شک ہے۔کیا اللہ تعالیٰ بغیر دلیل کے دین پر عمل کرنے کا حکم دے رہا ہے یا دلیل کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ کا تو فرمان ہے۔ ﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾ (سورۃ الاسراء ۳۶) ترجمہ:پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ کیا یہ ساری آیتیں تقلید کا حکم دے رہی ہیں یا تقلید سے منع کر رہی ہیں ۔ اب شاید کوئی یہ کہہ دے کہ بھائی ہم تو اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں وہ تو علماء ہی جانتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے۔ ﴿فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل ۴۳) ترجمہ: اہل علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔ اور علمائے اہل حدیث کے عوام بھی ان سے پوچھتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں ہم پر کیا طعن؟ تو جواب اس کا یہ ہے :۔ اگر کسی سے کچھ پوچھنے کا نام تقلید ہے تو پھر آج دنیا میں کوئی بھی حنفی نہیں ہے کیونکہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ تو دنیا میں نہیں رہے اور ہر حنفی اپنے اپنے علاقہ کے مفتی یا مسجد کے امام صاحب سے مسئلہ پوچھتا ہے تو پھر وہ اس مفتی یا اما م مسجد کا مقلد بن گیا نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بھائی ہمارا مفتی یا امام اس کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسئلہ ہی بتائے گا ۔ اسی لئے وہ اس مفتی یا امام مسجد کا مقلد نہیں ہو گا۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہی مقلد رہے گا۔ تو عرض یہ ہے کہ اسی طرح جب کوئی ہم سے مسئلہ پوچھے گا تو ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتائیں گے اس لئے وہ ہمارا مقلد نہیں ہو گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ یہ آیت تو خود ہمارے لئے دلیل ہے نہ کہ مقلدین کے لئے کیونکہ اگر کسی کو علم نہ ہو تو وہ پوچھتا ہے پوچھنے کے بعد اسے علم ہو جاتا ہے کیونکہ آیت میں ہے ﴿إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ اگر تم کو علم نہ ہو تو پوچھواور یہ اس لئے تا کہ عمل علم کے مطابق ہو سکے اوریہ علم اس کے عمل پر دلیل ہو۔حالانکہ تقلید نام ہے بغیر کسی دلیل اور