کتاب: تقلید کی حقیقت - صفحہ 14
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ( اپنے عمل و اعتقاد میں ) سچے ہو تو دلیل لاؤ۔ لیکن ہر زمانے میں یہی دستور رہا کہ جب بھی مقلد سے اس کے عمل پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو وہ بجائے دلیل لانے کے اپنے آباء و اجداد اور بڑوں کا عمل دکھاتا کہ یہ کام کرنے والے جتنے بزرگ ہیں کیا وہ سب گمراہ تھے؟ ہم تو انہی کی پیروی کریں گے۔ بالکل یہی بات قرآن کریم سے سنئیے۔ ۱۔قال تعالیٰ: وَإذَا قِیلَ لَھُمْ اتَّبِعُوْا مَا أنْزَلَ اللّٰہ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْنَا عَلَیہِ أبَائَنَا۔(سورۃلقمان۔۲۱) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔ بالکل اسی طرح آج بھی کسی حنفی سے جب کہا جاتا ہے کہ بھائی اللہ تعالیٰ کا قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تو یوں کہتی ہے تو وہ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ھدایہ پر عمل کرتے ہوئے پایا ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ یہی حال قرآن کریم کی زبان سے سنیئے۔ ۲۔ وقال تعالیٰ: ﴿ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلٰی الرَّسُوْلِ قَالُوْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ أبَائَ نَا﴾ (سورۃ المائدۃ ۱۰۴ ) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اب مقلدین کچھ بھی کہہ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے۔ ۳۔ قال تعالیٰ: ﴿فَلا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلَّمُوْا تَسْلِیمًا﴾ (النساء ۶۵) قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیں ہو سکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے راضی نہیں ہیں وہ لوگ کبھی مومن