کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 99
برسوں کے بعد یہ بات مجھے قطعیت کے ساتھ معلوم ہوئی کہ ایک پل بھی اگر خداکی معیت حاصل ہو جائےتو یہ تخت سلیمانی کے ملنے سے بہتر ہے۔ )
سچی اور دائمی عزت کسے حاصل ہے؟
ذرا دیکھیے کہ قرآن مجید کہتا ہے:
((مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا)) (فاطر:10)
یہ رحمتوں اور سکینتوں کا درود تو بجا ہے۔ یہ غم واندوہ سے چھٹکارا بھی درست مگر یہ مت خیال کیجیے کہ عزت کی تلاش میں کسی غیر کے دروازے پر جانا ہے۔ قرآن مجید نے HONOURکا ایک واضح CONCEPTIONدیا ہے۔ خدا کہتا ہے کہ عزت کا سر چشمہ اور منبع میں ہون اور ایک دوسری جگہ کہا: ((وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ)) (منافقون:8) دیکھو، سچی عزت اللہ کو حاصل ہے اور اس کے پیغمبروں کو حاصل ہے اور مومنوں کو حاصل ہے۔ “سچی عزت سے میری مراد وہ عزت ہے جو روح کی گہرائیوں سے کی جائے، دل اور دماغ کی ہم آہنگی سے کی جائے سچی عزت وہ ہے جو موجودگی اور عدم موجود گی میں یکساں کی جائے۔ سچی عزت وہ ہے کہ زمانے کی لنبان گو کتنی آگے کو بڑھ جائے، وہ چمکتی رہے وہ نکھرتی رہے، اور صاحب عزت کانام مہکتا رہے۔
خدا کہتا ہے کہ میں حقیقی اور سچی عزت اس دنیا میں اپنے پیغمبروں کو عطا کرتا ہوں ۔ اس مادیت کے دور میں، اس الحاد و زندقت کے دور میں،اس فسق و فجور اور کفران و معصیت کے دور میں بھی جو عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے، جو عزت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حاصل ہے، جو عزت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حاصل ہے، اس کا لاکھواں حصہ بھی برٹرنڈرسل اور آئن سٹائن کو حاصل نہیں۔ تمام بنی نوع انسان کے دل آج بھی چند نبیوں کی محبت اور عقیدت سے آباد ہیں۔
پھر جو اُن کے دامن سےوابستہ ہوئے اور جنہوں نے اُن سے وفا کی وہ سب معزز ٹھہرادیے