کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 98
(جو لوگ بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں، رحمت کے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور سکینت اُن پر نازل ہوتی ہے۔ ) آپ یہ مت خیال کیجیے کہ یہ اللہ والے رات بھر اُس کے حضورمیں بیٹھے رہتے ہیں، یونہی خشک اور بے لذت بیٹھتے ہیں۔ ان پر اللہ کی رحمتیں برستی ہیں اور انوار الٰہی کا رزق کھاتے ہیں۔ وہ رُوحانی رزق جس کی لذت کے سامنے کائنات کی تمام لذتیں ہیچ ہیں ،اگر فیضان الٰہی نہ ہو رہا ہو تو پانچ منٹ بھی مصلے پر نہیں بیٹھا جاتا تسبیح ہاتھ سے چھوٹنے لگتی ہے پھر ٹیک لگاتے ہیں اور لیٹ جاتے ہیں۔ سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی لذت کو یوں بیان کیا: الف اللہ چنبے دی بُوٹی مرشد من میرے وچ لائی ہُو نفی اثبات دا پانی ملیوس ہر رگے ہر جائی ہُو اندر بُوٹی مشک مچایا جاں پُھلن پر آئی ہُو جیوے مرشد کامل باہو جیں اے بُوٹی لائی ہُو فرماتے ہیں: کہ میرے شیخ نے میرے من کی زمین میں لفظ ”اللہ“جو چنبیلی کا پودا تھا لگایا اور ((لا الٰه الا اللّٰه))کے پانی سے میری رگ رگ اور نس نس کو سینچا فرماتے ہیں کہ اللہ کے ذکر سے میرا سینہ مہک اُٹھا ہے اور اس کی لذت سے یُوں سر شار ہوا ہوں کہ آپے سے باہر ہوا جاتا ہوں۔ دوستو!یہ محض کہاوتیں اور بجھارتیں نہیں ہیں۔ میں بھی انہیں بجھارتیں سمجھتا تھا۔ میں فلسفے کا طالب علم تھا۔ جب تک یہ سب کچھ مجھ پر وارد نہیں ہو گیا خدا کی قسم جھٹلاتا رہا ان سب باتوں کو۔ تواسی دنیا میں اللہ کی رحمتوں کا ورود ہوتا ہے۔ خاقانی نے بجا کہا تھا:؎ پس ازسی سال ایں نکتہ محقق شدبہ خاقانی کہ یکدم باخدا بودن بہ از ملک سلیمانی (خاقانی کہتا ہے کہ تیس برس تک میں مارا مارا پھرتا رہا سکون کی تلاش میں تیس