کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 97
ولستُ بمبدٍ للعدو تخشُّعاً ولا جزَعَاً، إنّي إلى اللّٰه مَرجِعي یعنی میں دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والا نہیں ہوں۔ میرے دشمنو! تم میرے چہرے پر آج گھبراہٹ کے آثار نہ دیکھ سکو گے تمھیں تمنا تو ہو گی کہ تم خبیب رضی اللہ عنہ کے چہرے پر جب وہ پھانسی کی طرف جا رہا ہو گھبراہٹ دیکھ سکو تمھاری یہ تمنا غلط ہے۔ (( إنّي إلى اللّٰه مَرجِعي)) میں تو اپنے محبوب کی طرف لوٹ رہا ہوں، میرے چہرے پر گھراہٹ تم کہاں دیکھ سکو گے اور کہا: وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا علَى أيِّ شِقٍّ كانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي (مجھے اس جرم کی پاداش میں تم قتل کر رہے ہو کہ میں اللہ سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ میرا محبوب ہے اگر میرا جرم یہی ہے تومجھے کچھ پروا نہیں جس پہلو تم چاہو ، مجھے مارو۔ جس پہلو تم چاہو مجھے پچھاڑو۔ (( وَلَسْتُ أُبَالِي )) (I CARE TWO HOOTS FOR IT)ذہن اور رُوح کی یہ کیفیت اسی دنیا میں انسان کو حاصل ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑا ڈر جو وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کو بھی ہوتا ہے وہ موت کا ڈر ہے۔ یہ موت کا ڈر بھی اللہ کے دوستوں کی رُوحوں سے اُچک لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اُس کے ایک دوست نے کہا: ؎ خزم آں روز کزیں منزل ویراں بردم راحت جاں طلبم و زپئےجاناں بردم (وہ دن بھی کیا غضب کا دن ہو گا جب اس دنیا سے میں اپنے محبوب کی طرف جاؤں گا، میری روح کو قرارآجائے گا۔ ) یہ پہلا انعام ہے جو فرد کو اس دنیا میں اللہ کے ساتھ تعلق سے حاصل ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ((لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْهُمُ المَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عليهمِ السَّكِينَةُ،)) (مسلم)