کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 95
میرے ساتھ دوستی نباہی وہی یوں کہتا ہے: ((وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ))میں نے اس دنیا میں اُس کو معزز کیا اور آخرت میں تو اسے باعزت ہونا ہی ہے۔ انبیاء جب اس سے تعلق استوار کرتے رہے تو دعا یوں مانگتے رہے:
((فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ)) اے زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والے! اے میرے اللہ!میں تیرے ساتھ دوستی کر رہا ہوں اور تو اس دنیا میں میرا دوست ہے دنیا کے معاملات سنوار نے اور سلجھانے کے لیے میں کس سے مدد چاہوں۔
دین کا غلط تصور پیش کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام دین سے بھاگتے ہیں اور بدکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ اس دنیا میں اس کا قانون جزاو سزا کیا ہے؟
یاد رکھیے کہ یہ سوال جو ذہنوں میں اُبھرتے ہیں،ان کو (SUPRESS) کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو تا۔ ان کو باہر لانا چاہیے۔ خود میرے ذہن میں بھی یہ سب سوال اُبھرتے تھے اور قرآن مجید کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اُن کا جواب کتاب اللہ میں ڈھونڈتا رہا اور اب بھی ڈھونڈتا ہوں۔ قرآن مجید پڑھنے سے میرا ذہن صاف ہوا۔ قرآن نے بہت صاف اور واضح طور پر افراد کی ترقی اور انحطاط اور اقوام کے عروج و زوال کے تمام قاعدے اور ضابطے کھول کر بیان کیے۔ قرآن نے بہت صاف طور پر بتایا کہ جونہی ایک فرد میرے ساتھ دوستی کرتا ہے، میں اُسے کیا عطا کرتا ہوں۔ رسماً اور رواجاً مسلمان ہونے کی بات میں نہیں کر رہا اور نہ جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے مسلمان ہونے کا ذکر کر رہا ہوں۔ اسی لیے میں بار بار دوستی کا لفظ بول رہا ہوں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔
قرآن نے واضح طور پر کہا: ((إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿30﴾ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ)) (حٰم السجدة:30تا31)