کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 94
کہ انسان کو بڑا جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ جلدبازی تو انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ وہ تو کہتا ہے،اس وقت جن اذیتوں اور کلفتوں میں مبتلا ہوں، اُن سے نجات پانے کی کوئی راہ بتاؤ۔ اس وقت میری راحت کا کوئی سامان کرو،اُس سے یہ کہنا کہ یہاں ساٹھ برس تک تم بے سہارا جیو،تم اذیتیں جھیلو، تم ذلت و رسوائی گوارا کرو، مرنے کے بعد تمھیں بہشت ملے گی، بڑی غیر حکیمانہ بات ہے۔ وہ رب العالمین ہو کر، وہ رحمٰن و رحیم ہو کر ساٹھ برس تک ہماری دوستی کا جواب نہ دے اور ہم اُس کی عاجز مخلوق ہوتے ہوئے زندگی بھریک طرفہ دوستی نبھاتے رہیں اور جب ہم مر جائیں اور قبروں میں چلے جائیں تو وہاں وہ ہمیں سرخ رو کرے اور عزت عطا کرے، بزرگوں سے معذرت چاہتے ہوئے کہتا ہوں۔ ع
یہ کیا دل دہی ہے یہ کیا دلبری ہے؟
اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لیے اس دنیا میں کیا ہے؟
یہ ہے وہ سوال جو ذہن میں اُبھرتا ہے۔ میں عربی زبان کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ جب عربی زبان میں اتنی شُد بُد مجھے ہوئی کہ کتاب اللہ کا براہ راست مطالعہ کر سکوں تو اس سوال کا بہت صاف اور واضح جواب میں نے کتاب اللہ میں پالیا۔ قرآن مجید کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ دوستی کا صلہ ۔ ۔ ۔ ۔ بھر پور صلہ دوستی کے عہد و پیمان کے ساتھ ہی وہ دینے لگتا ہے۔ وہ تو واضح طور پر کہتا ہے: ((نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ)) (فصلت:31)
اس دنیا کی زندگی میں ہم تمھارے دوست ہیں تمھارے حامی و ناصر ہیں تمھارے پشت پناہ ہیں۔ یہ نہیں کہ اس دنیا میں تمھیں بے سہارا چھوڑدیں۔ وہ تو واضح طور پر کہتا ہے:
((لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ)) (يونس:64)
وہ جو میرے ساتھ دوستی کرتے ہیں اس دنیا کی زندگی میں انہیں بشارت دوں میں اس دنیا کی زندگی میں اُن کو سرخرو کروں گا۔ وہ اپنے دوستوں کا جہاں کہیں ذکر کرتا ہے کہ فلاں دوست نے