کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 93
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیمُ
”یہ تقریر کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج، لاہور میں”مجلس فکروعمل “کے زیر اہتمام
4/فروری1974ءکو کی گئی۔ تقریر کو موصوف نے خود قلمبند کیا ہے۔
صاحب صدر گرامی قدر! خواتین و حضرات!
میں نے یہاں آنے سے پہلے اپنے بعض احباب سے جو اس کا لج میں ہیں مشورہ کیا کہ کیا موضوع سخن ہو؟طے یہ پایاکہ بات اس موضوع پر کی جائے کہ اس دنیا میں کیا اللہ کا کوئی قانون جزاو سزا ہے؟سب سے پہلا سوال جو ہمارے ذہنوں میں اُبھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دنیا جس میں ہم بس رہے ہیں یہ زندگی جو اس وقت ہم گزار رہے ہیں۔ اس زندگی میں اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے ہمیں کیا ملتا ہے۔ اس دنیا میں اُس کے ساتھ تعلق جوڑنے میں کیا منفعت ہے؟اور اس کے ساتھ تعلق توڑنے میں کیا گھاٹا ہے؟منبر و محراب سے یہ آواز تو بہت اُٹھتی ہے۔ نیک عمل کرو۔ اس سے آخرت میں یہ ثواب ہوگا اوربد اعمالیوں سے اجتناب کرو وگرنہ آخرت میں یہ عذاب ہوگا۔ آخرت کا عذاب وثواب برحق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس دُنیا میں اپنے دوستوں کو وہ بے یارو مدد گار چھوڑ دیتا ہے؟کیا اس دُنیا میں اُن کے لیے ذلت و رسوائی ہے؟اسی طرح وہ لوگ جو اس سے سرکش ہو گئے وہ جو رسیاں تڑا بیٹھے ہیں، اُن کے بارے میں یہ گمان کہ انہیں آخرت میں ہی سر زنش ہو گی،اب وہ کھل کھیلیں اور من مانی کریں۔ اس خیال میں صداقت کہاں تک ہے؟
بات یہ ہے کہ خود قرآن میں لکھا ہے۔ (( خُلِقَ الْإِنْسَان مِنْ عَجَل))