کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 89
دوستو!میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ مجذوب بیچارہ معذور ہوتا ہے۔ اس کی لوحِ دماغ چٹخ جاتی ہے۔ وہ معذور آدمی ہے۔ وہ کسی تربیت کرنے کے قابل نہیں ہوتا اس لیے تمام اولیاء اللہ کا اتفاق ہوا کہ مجذوب کے پاس مت بیٹھو۔ وہ غیر ذمّہ دار ہے۔ مرفوع القلم ہے۔ اس سے کوئی باز پر س نہیں ہے ۔ جیسے ایک پاگل سے باز پرس نہیں۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ جونہی ایک انسان مجنون ہوتا ہے فرشتے اس کا نامۂ اعمال اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ معنی ہیں مرفوع القلم ہونے کے۔ اہل اللہ کا اتفاق ہے کہ مجذوب کے پاس بیٹھنا ضرررساں ہوسکتا ہے۔ پھر غور کیجئے۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ وہ سب کیفیتیں جو اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہیں قرآن ان کو بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید پیغمبر کے یہ اوصاف تو بیان کرتا ہے کہ وہ تزکیہ کرتا ہے کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ وہ ان پر سُکر طاری کردیتا ہے۔ مدہوشی طاری کردیتا ہے۔ یہ بات بھی کہی جاسکتی تھی۔ اس میں کیا مشکل تھی۔ دیکھئے قرآن مجید پر غور کیجئے وہ سب کیفیتیں جو اللہ کی نظر میں پسندیدہ تھیں وہ سب قرآن مجید میں لکھی ہوئی ہیں۔ مثلاً قرآن میں ہے۔ ((تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ)) یہ کیفیت مومنین پر طاری ہوتی ہے۔ کہ قرآن سن کر ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ان پر رقّت طاری ہوجاتی ہے۔ ان کے دل اللہ کے ذکر سے جاری ہوجاتے ہیں۔ ((إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا))جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو بے ساختہ سجدوں میں گر جاتے ہیں۔ اور گریہ وزاری کرتے ہیں۔ ((تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ)) آپ دیکھیں