کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 87
اللہ تعالیٰ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے ،ذہن صاف ہونا چاہیے۔ یا تو کہہ دیجئے کہ کتا ب کو اُوپر رکھ دو ہم نہیں مانتے اس کتاب کو۔ اگر ماننا کتاب اللہ کو ہی ہے تو وہ بار بار کہتا ہے۔ ((وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)) اللہ تعالیٰ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتاہے۔ حدیث شریف میں ہے((النَّظَافَةُ مِنَ الْإِيمَانِ)) صاف ستھرا رہنا ایمان کی نشانی ہے ۔ گندگی سے نفرت ہونا ایمان کی نشانی ہے۔ کتنی بڑی غلط فہمی ہے کہتے ہیں اس کو تن بدن کا ہوش نہیں۔ دوستو!اگر تن بدن کا ہوش نہ ہونا خوبی کی بات ہوتی تو سب پیغمبر مدہوش ہوتے۔ مگر کوئی پیغمبر مدہوش نہ تھا۔ تمام پیغمبر باہوش تھے۔ یاد رکھئیے!(( يُزَكِّيهِمْ)) کا عمل وہی شخص کرسکتا ہے جو خود باہوش ہو۔ دوسروں کا تزکیہ کرنے کے لیے ہوش وآگہی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کتاب وحکمت کو سمجھنے کے لیے عقل وہوش کی ضرورت ہے۔ اور دوسروں کو سمجھانے کے لیے اس سے زیادہ عقل وہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قرآنی نقطہ نظر سے پاک صاف رہنا،ہوش وآگہی کی حالت میں ہونا مدہوش ہونے سے افضل ہے۔ میں انکار نہیں کرتا۔ میں خود تصوف کا طالب علم ہوں۔ اس راستے سے گزرا ہوں،جس طرح ایک ادنیٰ طالب علم گزرتا ہے۔ میں مجذوب کو بھی مانتا ہوں۔ مجذوب کون ہے؟مجذوب وہ ہے جو سلوک کے مقامات طے کرتے ہوئے راستے میں کسی مقام کی تجلی اُس پر پڑے اور اس کی لوحِ دماغ چٹخ جائے،اس کو مجذوب کہتے ہیں۔ مجذوب کا معنی ہے وہ آدمی جس کو کھینچ لیا گیا ہو۔ دوستو! وہ لوگ اس راستے سے ناواقف ہیں جو سرے سے مانتے ہی نہیں کہ کوئی مجذوب ہوسکتا ہے۔ افراط و تفریط بڑی چیز ہے۔ قرآن میں ہے کہ پہاڑ پر تجلی پڑی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔ ایک ولی جس کے وجود پر پے درپے