کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 85
ٹھونس لیتے تھے کہ ان کی آواز ہمارے کانوں میں نہ آئے۔ اپنے منہ پر کپڑے ڈال لیتے تھے کہ ان کا چہرہ نظر نہ آئے۔ پھر اصرار کیا اور اکڑ فوں دکھائی کہ جاؤ تمہاری بات نہیں مانتے۔ کہاں گئی وہ کسوٹی اور وہ معیار کہ جو جتنا بڑا ولی ہوگا اس کے پاس اسی قدر ہجوم زیادہ ہوگا۔ ((بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ))یہ بات تو تم نے اپنے جی میں گھڑلی ہے ۔ جی سے کسوٹیاں نہیں گھڑنی چاہئیں۔ اس سے آدمی بھٹکتا ہے ۔ گمراہ ہوتا ہے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ اس شیخ کے پاس بیٹھنے سے تزکیہ ہوتا ہے؟قرآن وحدیث کا فہم حاصل ہوتا ہے؟قرآن و حدیث کی بات بتاتا ہے کہ من گھڑت قصّے سناتا ہے؟میں سوچ رہا تھا کہ یار لوگوں نے کتنے الٹے سیدھے معیار اپنے جی سے گھڑ لیے ہیں۔ اس آیت پر غور کیجئے ۔ یہ نہیں کہا کہ((يسخّرهم)) کیا مشکل تھا کہ جہاں یہ کہہ دیا ((يُزَكِّيهِمْ)) وہ ان کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ ساتھ کہہ دیتے۔ ((وَيسخّرهم وَيَتَصَرَّفُ فِي قُلُوبِهِمْ)) وہ ان کی تسخیر کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں تصرف کرتےہیں۔ تسخیر کا عمل اگر کوئی خوبی کی بات ہوتی تو تیس پاروں میں ایک جگہ ہی فرمادیتے۔ جہاں باربار قرآن نے کہا((يُزَكِّيهِمْ)) وہ انہیں پاک کرتے ہیں۔ ((وَيُعَلِّمُهُمُ)) وہ ان کو علم بخشتے ہیں۔ ایک دفعہ یہ بھی فرمادیتے ۔ ((يسخّرهم)) ان کو مسخر کرتے ہیں۔ یہ کہیں نہیں فرمایا دوستو! تصرف اور تسخیر کا عمل تو اہل مغرب بھی کرتے ہیں۔ یہ ہپنائزم اور مسمریزم بھی تو تسخیر ہی کا عمل ہے۔ یہ قوت ارادی WILL POWER کی مشق کی بات ہے۔ شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ،فتوحات مکیہ میں اسے ہمت ِ باطنیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس بات کا للہیت اور تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔