کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 84
سے نڈر ہوکر تیس پارے معاشرے کے سامنے پیش کرے۔ اپنا تزکیہ کرے اپنے دل کی سیاہیاں دھوئے۔ معاشرے کا تزکیہ کرے۔ خود کتاب وحکمت کا علم حاصل کرے،اور لوگوں کوقرآن وسنت کی تعلیم دے،انسان کی گمراہی یہ ہے کہ یہ کسوٹیاں چھوڑ کر دنیا جہاں کے معیار ٹھہرائے۔ اگر کوئی معیار پیش نظر نہیں رہتا تو وہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا معیار ہے۔ کس قدر شیطان انسان کو بہکاتا ہے۔ بعض لوگ سادگی سے کہتے ہیں کہ میں فلاں پیر کا مرید ہوں۔ بڑی بھاری گدی ہے۔
دوستو!یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کسوٹی تو وہی ہے جو پچھلے کئی ہفتوں سے بیان کررہا ہوں۔ جیسے قرآن نے بار بار بیان کیا ہے۔
مریدوں کی کثرت قرآنی نقطہ نظر سے شیخ کی حقانیت کی دلیل نہیں۔ قرآن مجید میں تو یہ لکھا ہے۔
((وَأكثرهم لِلۡحَقِّ كَـٰرِهُونَ)) انسانوں كو كيا ہوگیا ہے۔ ان میں سے اکثر کو حق بات ناگوار گذرتی ہے۔ ((وَ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)) ان میں سے اکثر عقل سے کام ہی نہیں لیتے۔ ((وَأَكثَرُهُمُ الفَاسِقُونَ)) اكثر لوگ جو ہیں وہ سرکش ہوگئے ہیں۔ سورہ ہودکو پڑھیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ (( وَمَآ آمَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِيلٌ)) بہت کم لوگ تھے جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے۔ وہ تو اولوالعزم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان کا مقام اولیاء سے اونچا تھا اور اکثریت نے انہیں جھٹلا دیا۔ اگر قرب وولایت کا معیار یہی ہے کہ وہاں خلقت کا ہجوم ہوتا ہے تو حضرت نوح علیہ السلام جیسے ا ولوالعزم پیغمبر کے بارے میں تم کیا کہو گے؟حضرت نوح علیہ السلام نے کہا۔
((قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا))
میں دن رات اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتا رہا۔ میں جس قدر اپنی قوم کو پکارتا رہا وہ مجھ سے بھاگتے چلے گئے۔
((جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا))
جب وہ اللہ کی طرف بلاتے تھے تو کانوں میں انگلیاں