کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 82
اور اس سے بڑی جراحی کیا ہو سکتی ہے سرداران قریش بیٹھے ہیں اور آپ ان سے فرما رہے ہیں ((لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ))اپنے اسلام کا احسان مجھ پر مت جتایا کرو۔ دوستو!اس راستے میں مار کھانی ہے جب تزکیہ ہو صبر کرو۔ قرآن کی تعلیم صبر سے حاصل کرو، حدیث اور فقہ کی تعلیم دلجمعی سے حاصل کرو، ذکر میں صبر سے بیٹھو،قبض ہو تو بھی صبر کرو، کبھی انوار کا نزول نہ ہو تو بھی صبر کرو، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے آدمی بے کیف بیٹھا ہے، اس وقت طالب کہے ذکر تو اللہ تیرے لیے کرتا ہوں،اس لیے نہیں کرتا کہ چٹخارہ آتا ہے وہ تو لذت پرستی ہوئی، وہ بھی بت پرستی ہوئی، صبر سے کام لو انوار نازل ہوں یا نہ ہوں۔ کیسے بلیغ لفظ فرمائے۔ ((اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ)) صبر اور نمازسے قرب کی منازل طے کرنے میں مدد حاصل کرو۔ یاد رکھیئے شریعت اور طریقت دونوں کی انتہا نماز ہے یہ بڑی چیز ہے نماز ساری عبادتوں کا جوہر ہے۔ نماز کے اندر تسبیح ،تحمید اور تمجید بھی ہے، اور نماز کے اندر دعا بھی ہے، نماز کے اندر روزہ بھی ہے کہ روزمہ میں آپ کھاتے پیتے نہیں ہیں،اختلاط نہیں کرتے ہیں۔ کیا روزے کی تمام برکات شامل نہیں ہیں نماز میںِ نماز میں حج بھی ہے ((فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ))مسجد حرام کی طرف رخ کرو، دل بیت اللہ میں اٹکا ہوتا ہے نماز میں قرآن کی تلاوت بھی ہے۔ جتنا ہم اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے ایسی نماز چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں مل گئی ہے اس لیے ہم نے اس کی قدر نہیں کی۔ ذکر شکر اور صبر ان سب باتوں کا ذکر کرنے کے بعد نماز کی تلقین کی۔ فرمایا ((اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ)) ذکر کی انتہا بھی نماز ہے، شکر کی انتہا بھی نمازہے۔ بات یہاں آکر ختم ہوئی:۔ (( إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ)) یقیناً جم کر کام کرنے والوں کو اللہ کی معیت حاصل ہو جاتی ہے۔