کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 8
اس کی غلامی کرتے ہیں۔ ‘‘
تُم نے کہا کہ تمہیں رنگنا نہیں آتا۔ میں نے مُلک میں ہانک لگائی کہ کوئی ہے جو دلوں کو رنگوانا چاہے۔ دیکھو! میرے دروازے پر گاہکوں کی بھیڑ لگی ہے۔
دوستو!میں تو دھوبی ہوں۔ میرا کام دلوں کی میل کچیل کو چھانٹ دینا ہے۔ تُم نے کہا کہ تمہیں دھونا نہیں آتا۔ میں نے ملک میں ہانک لگائی کہ کوئی ہے جو دل کی سیاہی دُھلوانا چاہے۔
دوستو!میں تو سقا ہوں،میرا کام روح کی پیاس بجھانا ہے۔ تُم نے کہا کہ ہم تیرے مشکیزے سے پانی نہیں پیتے۔ میں نے ملک میں ہانک لگائی کہ کوئی ہے جو دل کی پیاس بجھانا چاہے۔ دیوبندی آئے،بریلوی آئے،مولوی آئے ،بابوآئے،انجینئر آئے،ایڈووکیٹ آئے،پروفیسر آئے،سب نے کہا کہ ہم تیرے مشکیزے سے پانی پیتے ہیں۔
اور اس سارے دھندے سے خدا شاہد ہے مقصود فقط یہ ہے کہ اپنے نفس کا تزکیہ کرسکوں،اپنے دل کا میل کچیل چھانٹ سکوں۔
دوستو!وعظ کیا ہے؟رُوحانی اور اخلاقی بیماریوں کی تشخیص کرنا اور دوا دینا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دواتلخ ہوتی ہے اور بیمار ناک بھوں چڑھاتا ہے ،لیکن مشفق طبیب کو چاہیے کہ دواحلق میں انڈیل دے۔ مریض کو جب شفا ہوجاتی ہے،تو دُعا دیتا ہے۔
دوستو!اگرمریض کو زکام ہو اور طبیب اسے معدے کی دوادے ۔ تو اس کی نااہلی میں شک وشُبہ کی کیا گنجائش باقی رہتی ہے۔ اپنی اور سامعین کی جو