کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 79
کا کچھ احساس نہیں ہے، اس کو اپنے ضمیر اور ایمان کا کوئی خیال نہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ((وَيُزَكِّيكُمْ))کا حصہ ہم نے حذف کردیا۔ ایک اور بات جو آیت کو پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سمجھائی وہ یہ ہے کہ ((وَيُزَكِّيكُمْ))کا لفظ زکوٰۃ سے نکلا ہے، جیسا کہ امام راغب رحمۃ اللہ علیہ اصفہانی نے ”المفردات“ میں لکھا ہے ((الزكوٰة۔ ۔ ۔ النُمُّو۔ ۔ ۔ ))زکوۃکا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے تو تزکیہ کا معنی یہ ہے کسی کو پروان چڑھانا کسی کی نشو و نما کرنا۔ دوستو! یہ بات بھیاسی آیت سے مستنبط ہوتی ہے کہ شیخ کسی کی استعداد کو نہیں بدل سکتا وہ صرف اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تصوف کا۔
میں چند لفظوں میں عرض کرتا ہوں۔ یہ کہیں نہیں لکھا تیس پاروں میں کہ پیغمبر ان کیاستعداد کو بدل دیتا ہے۔ ہر شخص کی اپنی ایک استعداد ہے۔ ایک دفعہ حضوراقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لوگوں نے کہا کہ حضرت یہ تو بعد میں مسلمان ہوا اور یہ اتنا آگے نکل گیا ۔ میں بہت پرانا مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَخِيارُكُمْ في الجاهليةِ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خِيارُكُمْ في الإسلامِ۔ ۔ ۔ الناس كالمعادن،معادن الذهب والفضة))بھئی اس میں میرا کیا قصور ہےمختلف لوگ ہیں ان کی مثال کانوں کی سی ہے کوئی سونے کی کان ہے، کوئی چاندی کی کان ہے، اپنی اپنی استعداد ہے صلاحیتیں ہیں جن کے مطابق تم آگے بڑھتے ہو یادر رکھیے قرآن کے تیس پاروں میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا ولی نے کسی انسان کی استعداد کو بدل دیا ہو۔ یہ سنت اللہ کے منافی ہے۔ بات سیدھی اور صاف ہے ذہنی استعداد ہر شخص کی محدود ہے۔
ایک شخص جو ذہین نہیں ہے معلم اسے تعلیم دینے سے ذہین نہیں کر سکتا۔ یاد رکھیئے اسی طرح ہر انسان کی ایک روحانی استعداد ہوتی ہےاس روحانی استعداد کو شیخ نہیں بدل سکتا شیخ کاکام یہ ہوتا ہے کہ جتنی اس کے اندر صلاحیت