کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 78
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
اس کے باوجود کوچہ یار میں سر کے بل جاتے ہیں اور کتنے ہیں کہ جن کی عقل یہ کہتی ہے کہ سود حرام ہے، سودایک لعنت ہے مگر اس کے باوجود ان کاپورا کاروبار سود میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی عقل تو سود کو لعنت قراردیتی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہیئے کہ ذہنی انقلاب تو اس کے اندر آچکا ہے مگر اس کے باوجود وہ سود خواری میں ڈوبا ہوا ہے اس لیے کہ جذبات کی تطہیر نہیں ہوئی پس خیرو شر کا علم حاصل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جذبات کی تطہیر کی جائے یہی معنی ہیں((وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ))کےیہ جو قرآن نے بار بار ((وَيُزَكِّيكُمْ))کا لفظ استعمال کیا اس کے معنی یہی ہیں کہ ان کی صحبت سے تم پر اللہ کی رحمت وارد ہوتی ہے جس سے جذبات دھلتے ہیں اور جذبات دھلنے کے بعد تمھاری عقل میں کتاب اللہ ڈالتے ہیں۔ اگر برتن گندہ ہو اور اس میں قرآن ڈال دیں تو قرآن بھی جب باہر آتا ہے تو گندگی سے آلودہ ہوتا ہے، وہ آلودگی ہمارے نفس کی ہوتی ہے، قرآن کی نہیں ہوتی۔ اس آیت میں یہ بہت بڑی حقیقت بتائی گئی ہے کہ جذبات کی تطہیر کے بغیر تعلیم کتاب و حکمت ناقص ہے۔ اس لیے جب((وَيُعَلِّمُكُمُ)) کہا پہلے یہ کہا ((وَيُزَكِّيكُمْ))کہ وہ تمھاری تطہیر کرتے ہیں برتن مانجھتے ہیں پھر اس میں قرآن کا نور ڈالتے ہیں۔ یہ جتنی آج کل کی درسگاہیں ہیں ان میں تعلیم کا انتظام تو بہت ہے، تزکیہ کا کوئی انتظام نہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارا مولوی ضمیر بیچتا ہے، ایمان بیچتا ہے(معذرت چاہتا ہوں) اس کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں۔ اگر اس کا تذکیہ ہوا ہوتا تو اس کی روش قلندرا نہ ہوتی۔ اس کو کسی کا خوف نہ ہوتا۔ وہ وقت کے فرعونوں سے ہرگز نہ ڈرتا۔ یہ تو ایسی پست سطح پر چلا گیا ہے کہ ایک عام آدمی بھی اس پہ ترس کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کو اپنی قدروں