کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 76
کو سناؤ۔ معاشرے میں ہی وہ لوگ ہوتے تھے جو اپنے فیصلے اپنی ریتوں، اپنے رواجوں ، رسموں کے مطابق کرتے تھے اور جب یہ آیت نازل ہوئی:۔ (( وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ))تو حضور علیہ السلام پر یہ فرض عائد ہوا کہ معاشرےکے ان افراد کو جو آیتیں ان کے خلاف نازل ہوئی ہیں واضح طور پر سنادیں۔ ”اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق جو لوگ فیصلے نہیں دیتے یہ سب لوگ نا فرمان اور فاسق ہیں“کتنی بڑی ذمہ داری سے آپ ذرا غور تو کیجئے؟ ”یہ اُن کو سنانا پڑے گا ((فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ))یہی ظالم ہیں۔ پھر یہ سنانا پڑے گا۔ (( فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)))یہی لوگ ہیں جو کفر کر رہے ہیں۔ مبلغ کو چاہیے کہ پورے تیس پارے معاشرے کے سامنے رکھ دے۔ حتیٰ کہ اگر اپنے چچا کے خلاف آیت نازل ہوئی تو وہ بھی سنانی پڑی۔ ((تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ))کہ ابو لہب ہلاک ہوا۔ جن آیتوں میں اپنی ذات پر سر زنش ہوئی وہ بھی سنانا پڑیں۔ ((عَبَسَ وَتَوَلَّى (1) أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى)) ”تیوری چڑھائی اور رخ پھیر لیا کہ ایک اندھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آگیا مبلغ کو وہ آیتیں جو اپنے خلاف ہیں وہ بھی سنانا پڑتی ہیں دوستوں! مبلغ کو چاہیے کہ وہ واضح طور پر لوگوں سے کہے دے کہ حجت اور سند حضور علیہ السلام کا ہی قول و عمل ہے۔ اپنے نقائص اور عیوب کو جائزقراردینے کے لیے قرآن کی آیتوں میں تحریف نہ کرے۔ واضح طور پر کہہ دے کہ میرے ذاتی نقص کی بنا پر مسئلے کی نوعیت تو نہیں بدل سکتی۔ مبلغ کی بڑی کٹھن(DUTY)ہے کہ وہ تیس کے تیس پارے معاشرے کے سامنے رکھے:۔ (( يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا))یہ نہ کرےکہ ان آیتوں کو چھپا جائے جن کے سنانے سے سرزنش کا خطرہ ہو