کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 73
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ((لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ))کی عجب تشریح فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں۔ قرآن کو صرف وہی لوگ مس کرتے ہیں جنہیں پاک کردیا گیا ہو سے مراد یہ ہے کہ جن کو نفسانیت سے پاک کر دیا گیا ہے۔ وہی قرآن مجید کے انوار کو لمس کر سکتے ہیں۔ فرمایا: ((فَاذْكُرُونِي))میرا ذکر کرو اس طریق سے((لا الٰه الا الله،سبحان الله،الحمدلله،الله اكبر))کا ذکر کرو۔ جب حالت بہتر ہو تو قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل پر توجہ زیادہ صرف کرو۔ پھر فرماتے ہیں۔ ((وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ))میرا شکرادا کرو۔ دیکھئے: ذکر کے ساتھ اکثر ”شکر“کا لفظ آیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دُعا مانگتے تھے۔ ((رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ))اے میرے پروردگار!میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں اور تیرا شکر کروں اور تیری عبادت حسن سلیقہ سے کروں۔ یہاں بھی دیکھئے ذکر اور شکر ساتھ ساتھ آئے ہیں گویا حسن عبادت ، ذکر،اور شکر، کے یکجا ہونے سے عبارت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اور شکر کا آپس میں ایک تعلق ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ((وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ))پیدا تمہیں اس لیے کیا کہ تم میری بندگی کرو۔ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ میری زبان تیرے نام سے ہل رہی ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو گالیاں دیتے پھرتے ہیں کتنے لوگ ہیں جن کو تیرا نام لینا نصیب نہیں ہوتا۔ صبح سے رات تک خرافات میں لگے رہتے ہیں۔ شطرنج کھیلتے ہیں، کتنے بوڑھے ہیں جن کو آپ دیکھتے ہیں کہ گلی میں بیٹھے تاش کھیلتے رہتے ہیں اور اللہ کا نام لینا انہیں نصیب نہیں ہوتا اور نہ انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ موت