کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 72
حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس راستے میں جب تک نفس فنا نہیں ہوتا ((لاالٰه الاالله))کا ذکر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ ((لاالٰه الااللّٰه))کے ورد کی کثرت سے سلوک کی منازل تیزی سے طے ہوتی ہیں۔ جب نفس فنا ہو جائے تو نماز (نوافل کی بات کر رہا ہوں، اور سنتیں تو کسی حالت میں نہیں چھوڑی جا سکتیں)اورقرآن مجید کی تلاوت سے قرب کی منزلیں تیزی سے طے ہوتی ہیں۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات میں فرمایا:
((غايت مقامات العابدين حقيقت الصلوٰة))عابدین کے مقامات کی انتہا نماز میں فنا ہونا ہے۔
نمازذکر کی(PURIFIED FORM)ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شروع میں فائدہ ((لاالٰه الاالله))کے ذکر سے ہوتا ہے جب نفس فنا ہونے لگے تو اس وقت نوافل سے فائدہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے فائدہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید افضل الکلام ہے اس لیے کہ کلام الٰہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس میں فنا ہونے سے اللہ کا قرب اور وصل حاصل ہوتا ہے۔ اس راستے میں جب آدمی پڑتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک انسان کے نفس پرنفسانیت کا غلبہ ہوتا ہے قرآن آدمی کو بد مزہ معلوم ہوتا ہے۔ آدمی زبان سے نہیں کہتا مگر اسے پڑھتے ہوئے اسے لذت نہیں آتی۔ لذت اس لیے نہیں آتی کہ کلام غیر جنس ہے۔ طبعی مناسبت نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ نفسانیت کا غلبہ ہو، نورا نیت اور صفت الٰہی سے مناسبت نہ ہو تو تلاوت سے انسان کو لطف نہیں آسکتا۔ جب اُسے طبعی مناسبت ہو جاتی ہے تو پھر کلام الٰہی کے علاوہ کوئی چیز اسے اچھی نہیں لگتی۔ بزرگوں کے حالات میں اکثر لکھا ہوتا ہے کہ آخری عمر میں سماع حضرت نے چھوڑدیا۔ اور ان کو قرآن مجید کے سوا ہر آواز کوے کی کائیں کائیں معلوم ہوتی تھی۔