کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 70
پھر فرمایا: ((وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ))کہ شیخ ایسے آدمی کو پکڑو جو تمھیں تعلیم قرآن دے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے قرآن کی معرفت حاصل ہو دین کا فہم پیدا ہو۔ اپنے تجربے کی بنا پر عرض کر رہا ہوں۔ یہ دور بہت انحطاط کا دور ہے ایسا شیخ جو بیک وقت روحانی تزکیہ بھی کرے، کتاب کی تعلیم بھی دے حدیث کی تعلیم بھی دے فقہ کی تعلیم بھی دے اور استنباط، استشہاد اور استخراج کا فہم بھی عطا کرے اس دور میں عنقا ہو گیا ہے۔ بعض لوگ بیٹھے رہتے ہیں کہ ایسا آدمی ملے جس میں بیک وقت یہ تمام محاسن اکٹھے ہوں۔ یہ بھی غلطی ہے۔ یہ بہت انحطاط کا دور ہے۔ اکثر حالتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ تجوید قرآن کہیں سے سیکھنی پڑتی ہے۔ تزکیہ روحانی کے لیے الگ شیخ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ تفسیر حدیث اور فقہ کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی اور کے دروازے پر جانا پڑتا ہے مجھے یاد ہے نوجوانی میں میں ادب پڑھتا تھا فلسفہ پڑھتا تھا، دین کی کتابیں کم پڑھتا تھا۔ مجھے پر جب اللہ نے کرم کیا اور اس کے راستے پر چلنے شوق جی میں پیدا ہواتو میں بہت دیر منتظر رہا کہ کوئی ایسا آدمی مل جائے جو تزکیہ بھی کرے اور کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دے میں نے حضرت والد علیہ الرحمۃ سے ذکر کیا کہ میں ایسے شیخ کی تلاش میں ہوں تو انھوں نے فرمایا ابو بکر!تم غلطی کر رہے ہو، تمھیں ایسا آدمی نہیں ملے گا۔ مختلف دروازوں سے جا کر بھیک مانگو۔ یہ قحط الرجال کا زمانہ ہے۔ جسے تزکیہ کی حقیقت معلوم ہے وہ علم تفسیر اور علم حدیث سے ناآشنا ہے۔ جو علم تفسیر و حدیث جانتا ہے وہ روحانی تربیت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ انحطاط کا دورہےدوستو!وہ آدمی بڑا خوش قسمت ہے جس کو ایسا آدمی مل جائے جو قرآن سکھائے دین کا فہم عطا کرے ذکر کے اسباق بھی دے جس کے پاس بیٹھنےسے فیضان الٰہی کی حقیقت بھی سمجھ میں آئے۔ قرآن مجید میں کہیں تزکیہ کا ذکرپہلے ہے اور تعلیم کتاب و حکمت کا بعد میں اور کہیں تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر پہلے ہے اور تزکیہ کا بعد میں اس کا سبب یہ ہے کہ کبھی تعلیم کتاب