کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 7
کرنے کے لیے لوگ پورب اور پچھم سے آتے تھے۔ جب آپ لوگوں کی اڑنگا پٹخنی،دھینگا مُشتی اور سرپھٹول دیکھتا ہوں تو جی جلتا ہے۔ ہرطرف خاک اُڑائی جاری ہے۔ اتنی خاک کے سب کے سروں پر خاک پڑی ہوئی ہے،سب کے چہرے خاک سے یوں لتھڑے ہوئے ہیں کہ میرے لیے شکلیں پہچاننی بھی مُشکل ہوگئی ہیں۔ جب یہ صورت حال دیکھتا ہوں تو آپ لوگوں سے بھاگ جاتا ہوں اور سالہا سال آپ سے رُوپوش رہتا ہوں اور یہ شعراُن دنوں پڑھا کرتا ہوں۔ ولو ناراً نفختَ بها أضاءتْ ولكنْ أنتَ تنفخُ في الرمادِ یہ راکھ جس میں تم پھونکیں ماررہے ہو،اگر اس میں کوئی چنگاری ہوتی،تو وہ یقیناً بھڑک اُٹھتی،مگر تم تو راکھ میں پھونکے ماررہے ہو۔ راکھ میں پھونکے مارنے سے اس کے سوا کیا حاصل ہوگا کہ تمہارے سرپر بھی راکھ پڑ ے گی۔ دوستو!میں تو دہقان ہوں،میرا کام دلوں کی زمین میں ہل چلانا ہے۔ تُم نے کہا کہ تم ہماری زمین پہ بل چلانے کے قابل نہیں ہو۔ میں تو خاندانی اور موروثی طور پر دہقان تھا،مجھے تو ہل چلانا ہی تھا مجھے تو آبیاری کرنی ہی تھی۔ یہ بات میری گھٹی میں تھی۔ میرے خمیر میں گُندھی ہوئی تھی۔ میں نے اور زمینیں ڈھونڈیں۔ دلوں اور رُوحوں کی زمینیں اور ان زمینوں پہ ہل چلاتا ہوں۔ دوستو!میں تو للاری ہوں۔ میرا کام دلوں کو اللہ کے رنگ میں رنگ دینا ہے۔ ((صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ)) ”اللہ کا رنگ اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے اور ہم تو بس