کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 69
آدمی کی جو درندوں کی صفات ہیں چوپایوں کی صفات ہیں وہ مغلوب ہو جائیں اور ملکیت غالب آجائے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے آدمی اللہ کے قریب ہونے لگے دنیا کے دھندوں اور دنیا کے کاموں کی محبت مغلوب ہونے لگے فرمایا((يُزَكِّيكُمْ))تمھارے دلوں کی سیاہیوں کو دھوتا ہے۔ وہ تم پر ملکیت کو غالب کرتا ہے۔ یہ ایک نشانی بتائی۔ وہ تم پر فیضان نازل کرتاہے۔ اسی لیے بزرگوں نے کہا کہ کسی مجلس میں جانے سے اگر آدمی کا دوچار مہینوں میں تزکیہ نہ ہو تو اس کو دوسری مجلس اختیار کرنی چاہیے۔ اور شیخ کو محبت سے رخصت کرنا چاہیے کہ تمھیں مجھ سے طبعی مناسبت نہ تھی۔ اس لیے مجھ سے تمھیں کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ اس میں کوئی جھگڑے کی بات نہیں ہے۔ جیسے کہ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا معاملہ ہوا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو واضح طور پر کہہ دیا:
((إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا))آپ کا رنگ دوسرا ہے میرا دوسرا ہم دونوں نہیں چل سکیں گے۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کہہ سکتے ہیں کہ ((هَـٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚ))تو کس کا مقام ہے کہ کسی کو کہے تم میرے ہاں ہی آیا کرو۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ((الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ))دیکھوروحیں جو ہیں لشکروں کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔ ((فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا))جن کی آپس میں طبعی مناسبت ہوتی ہے۔ ((ائْتَلَفَ))ان کی آپس میں محبت ہو جاتی ہے اتحاد ہو جاتا ہے جن کی آپس میں مناسبت نہیں ہو تی انھیں آپس میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔
شیخ وہ ہے کہ انسان اس کے پاس بیٹھے تو کم از کم ان لمحوں میں اُسے خدا یاد آئے یہ نہیں ہوتا ہے کہ دو چار دن ہی میں سب باتوں کا پتہ چل جائے۔ اگر آدمی کی روح بیمار ہے تو ان باتوں کا پتہ چلنے میں کچھ مدت لگ جاتی ہے۔