کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 68
((وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ))۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ((وَيُزَكِّيكُمْ ْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ))
معلوم ہوا کہ یہ کوئی بہت اہم بات ہے کہ جسے آل عمران میں بھی سورۃ الجمعہ میں بھی اور سورۃ البقرۃ میں بھی دہرایا گیا۔ تو معلوم ہوا یہ مقام قرآن کے اُن مقامات میں سے ہے جن پر غور اور خوض کرنا چاہیے۔
اُستاد یا شیخ جس سے ہم دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں یا جس سے ہم فیض حاصل کرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے اور نیا بت کا تقاضا یہ ہے کہ نائب کے اندر اس کی خوصیات ہوں جس کی وہ نیابت کر رہا ہو۔ شیخ ایسا ہو نا چاہیے جوقرآن مجید کو اپنی تعلیمات کا مرکز بنائے اور ایسا نہ ہوکہ غیر معصوم انسانوں کی تعلیمات کو اپنے نظریات کا مرکز و محور ٹھہراتا ہو۔
پہلی بات یہ فرمائی کہ جو پیغمبر کے نائب ہوں جو وارثین مسند نبوت ہوں یا وارثین نبوت کی نقالی کرتے ہوں، اُن میں پہلی خصوصیت یہ ہونی چاہیے۔ ((يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ)) اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اپنی تعلیمات کا مرکز و محور ٹھہرائیں۔
جب لوگ پوچھیں کہ شیخ کس کو بنائیں توجی سے گھڑ کر اس کے خصائص نہیں بتانے چاہئیں۔ اس کے خصائص کتاب اللہ میں لکھے ہوئے ہیں۔ حدیث میں ہے۔ ((العلماء ورثة الأنبياء))علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ پس وارث میں اسی کے محاسن اور شمائل ہونے چاہئیں۔ جس کی مسند وراثت پر وہ بیٹھا ہوا ہے۔ اگرچہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں محاسن کے اعتبار سے ایک اور لاکھ کی نسبت ہو۔ گو ذرے اور پہاڑ کی نسبت ہو مگر نیابت اور وراثت کا تقاضا ہے کہ اُسی کے نقش قدم پر چلے۔
فرماتے ہیں ((يُزَكِّيكُمْ))وہ تمھارا تزکیہ کرے وہ تمھاری روح کی سیاہیوں کو دھوڈالے۔ وہ تمھارے برتن کو ماسجھے۔ اُس کے پاس بیٹھنے سے بہیمیت مغلوب ہو