کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 67
لگتی ہے کہ استخارے کی نماز سے فائدہ تو کچھ نہیں ہے لہٰذا استخارے سے بدظن ہوا۔ بدظن ہونے سے حضورکی محبت میں کمی آئی۔ ایمان ناقص ہوا۔ مذہب سے دور ہوا۔ کہاں تک بات جا پہنچی۔ صرف اس لیے کہ ایک بات جو مشروط نہ تھی اور حدیث کی کسی کتاب میں لکھی نہ تھی وہ ہم نے حضور کے نام لگادی کہ خواب آئے گا۔ استخارہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کیا کرتے تھے۔ صبح فیصلہ ہوا کہ فلاں جگہ جانا ہے۔ اسی وقت دورکعت نماز پڑھنے اور استخارے کی دعا ((اللَّهُمَّ إنّي أسْتخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ))مانگتے تھے۔ سفر پر روانہ ہو جاتے تھے۔ اگر سفر میں شر ہو تو انسان کو روک لیا جاتا ہے۔ راستے میں سواری نہیں ملتی یا کچھ اور موانع پیش آجاتے ہیں۔ پس جو بات آیت میں مذکورہے اسی کی تمنا کرو، اور اس کے ذکر میں لگے رہو۔
((وآخر دعوانا ان الحمدللّٰه رب العالمين))
پچھلی دفعہ ایک آیت کی تشریح کر رہا تھا اور وہ تشریح ادھوری رہ گئی۔ سورۃ البقرہ کی آیت تھی: ((كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا))
اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان جتارہے ہیں کہ دیکھوں ہم نے تمہارے لیے تمھیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جس سے تمھیں فیضان حاصل ہوتا ہے اور یہ فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں تمھیں پڑھ کر سناتے ہیں، تمھارا تزکیہ کرتےہیں اور تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا:
((وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ))
سورۃ الجمعہ میں بھی فرمایا:
((وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ))
اسی طرح سورۃ البقرۃ میں بھی دو جگہ یہی بات کہی: