کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 66
تمنائیں اور آرزوئیں کرنے لگے تو بعض حالتوں میں یہ آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں، تو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بدگمان ہونے لگتا ہے۔ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ تم یاد کرو تو کشف ہونے لگے گا،تسخیر ہونے لگے گی، تصرف کی قوت حاصل ہوگی۔ یہ کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا : (( أَذْكُرْكُمْ)) میں تمھیں یاد کروں گا۔
اس میں بہت بڑی حکمت ہے۔ دوستو! میں کشف سے انکار نہیں کر رہا۔ اولیاء کو کشف ہوتا ہے۔ اولیاء اللہ سے کرامتیں بھی صادر ہوتی ہیں۔ تصرف بھی ہوتا ہے تسخیر بھی ہو تی ہے۔ مگر اس کا وعدہ نہیں ہے اور نہ مقصود و مطلوب ہے۔ کیونکہ ان باتوں کی ہر ایک میں صلاحیت نہیں ہوتی۔ معاہدے میں یہ شرط نہیں لکھی کہ جو مجھے یاد کرے گا اسے کشف ہونے لگے گا۔ اس لیے یہ توقع رکھ کر ذکر کرنا کہ مجھے کشف ہونے لگے غلط بات ہے۔ پس ذکر کرتے ہوئے سالک ایک ہی بات کی آرزو کر سکتا ہے۔ یعنی جو بات معاہدے میں لکھی ہوئی ہے۔ (( أَذْكُرْكُمْ)) کہ اب اس کے ہاں بھی میری یاد ہونے لگے گی۔ اس کا لمس میں محسوس کروں گا۔
حدیثوں میں استخارے کی جو نماز لکھی ہوئی ہے اس میں صرف یہ لکھا ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ لیا کرو۔ اس کے بعد یہ دعا مانگاکرو۔ برا کام ہو گا تو اللہ تعالیٰ روک لے گا۔ اچھا کام ہو گا تو خدا تمہارا ممدو معاون ہو گا۔ تم نے اپنے جی سے گھڑ لیا کہ خواب آئے گا اور جب نہیں آتا تو پریشان ہوتے ہو۔ استخارے کی احادیث میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ نماز استخارہ کے بعد خواب آئے گا۔ یہ بات ہم نے اپنے جی سے گھڑلی ہے احادیث سے واضح طور پریہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کام میں خیر ہو تو اللہ تکوینی طور پر ممدو معاون ہوتے ہیں۔ اگر کام میں شر ہو تو تکوینی طور پر رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں۔ خواب آنے کا وعدہ تو تھا نہیں جب بعض حالتوں میں کوئی خواب نہیں آتا تو انسان نماز استخارہ ہی سے بد گمان ہونے لگتا ہے۔ اگرچہ زبان سے نہیں کہتا۔ مگر اس کے ذہن میں یہ بات پیدا ہونے