کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 64
مختلف لوگوں کے لیے اس کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ بعض حالتوں میں ذکر اگر حدود سے متجاوز ہو جائے تو نقصان دہ ہوتا ہے، اس لیے کہ بتائے ہوئے طریقے سے نہیں کیا بلکہ اپنے جی سے گھڑ کر شروع کردیا۔ یہ بات یوں سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کوئی آدمی کسی کیمسٹ کی دکان پر جائے اور بے تحاشا بوتلیں اُٹھا اٹھا کر منہ کو لگائے اور دوائیں بے حساب پیتا چلاجائے،تو اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح ذکر کا جو دواخانہ ہے۔ اس کے بھی ڈاکٹر ہیں، اطبا ہیں جو دواؤں کی تاثیروں کو سمجھتے ہیں۔ اگر اتنا وقت نہ ہو تو حضور علیہ السلام نے جو بتادیا کہ 33دفعہ، سبحان اللہ۔ 33دفعہ الحمدللہ اور 34 دفعہ اللہ اکبر پڑھو۔ بس یہی پڑھا کرو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ تین گولیاں کھاؤ اور وہ چار کھانا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان حکمتوں کو سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کی بتائی ہوئی مقدار پر کم از کم اتنا ایمان تو لاؤجتنا ڈاکٹر کی بتائی ہوئی مقدار پر ایمان رکھتے ہو۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹرنے کہا ہے کہ چار گولیاں کھائیں اور بغیر اس کی علت معلوم کیے چار گولیاں ہی کھاتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ یقین کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی بتائی ہوئی مقدار پر ایمان لانا چاہیے۔ اس کی علت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
اس میں یہ بات یاد رکھنے کی ہےکہ بعض لوگ آتے ہیں۔ جب ہم انہیں کہتے ہیں کہ سبحان اللہ پڑھا کرو، سبحان اللہ و بحمدہٖ بڑا وظیفہ ہے تو وہ یوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے میں نے انہیں ٹرخادیا ہو۔ اگر انہیں کوئی لمبی چوڑی غیر مسنون عبارت بتا دی جائے تو بہت خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ زبردست وظیفہ بتایا ہے۔
ہمارے حضرات نے بتایا۔ دیکھو بڑی گستاخی اور بے ادبی کی کیفیت ہے جواُن پر طاری ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایسے لوگوں کے قلب و ذہن پر یہ بات طاری ہو رہی ہے کہ حضور کا بتایا ہوا وظیفہ کچھ نہیں ہے۔ اور ان کے خادموں کے بتائے