کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 63
چھوڑدی ہیں۔ اس دور کے علماء حضرات یا لیکچرار جب تقریر کرتے ہیں، تو قرآن کا متن نہیں پڑھتے۔ اس کو (Out Of Date)سمجھتے ہیں کہ آیتیں اور حدیثیں زیادہ پڑھی جائیں باتیں زیادہ کی جاتی ہیں۔ فقرہ بازیاں ہوتی ہیں۔ فلسفہ چھانٹنے کی کوشش زیادہ کی جاتی ہے۔ اس سے نحوست پیدا ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا قدم سیدھے راستے پر ہے وہ آیتوں کو تبرکاً تیمناً بھی پڑھتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں: ((وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُم الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ)) وہ تمہارا تزکیہ کرتے ہیں۔ وہ تمہاری رُوح کی سیاہیاں دھو ڈالتے ہیں۔ وہ تمہارے جذبات کی تطہیرکرتے ہیں اور تمھیں کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہیں اور دین کا فہم اور بصیرت تمھیں عطا کرتے ہیںاور تمھیں وہ علم و معرفت کی باتیں بتاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے۔ یعنی حضور علیہ السلام صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلب و((وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ)) ذہن کی بیک وقت تربیت کرتے تھے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرتے تھے۔ آگے فرماتے ہیں: ((فَاذْكُرُونِي)) میری یاد میں لگ جاؤ۔ میرے ذکر میں لگ جاؤ۔ گرہیں کھلتی جائیں گی۔ راستہ سلجھتا چلا جائے گا۔ جیسے آپ کسی کو کہیں کہ یہاں سے کراچی ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ پھر آپ اس کو سڑک بتائیں کہ اس پر چلنا شروع کرو۔ راستہ منکشف ہوتا چلا جائے گا۔ پس ((فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ))میرے ذکر میں لگ جاؤ۔ میں تمھیں یاد کروں گا۔ میری یادمیں لگ جاؤ جیسا کہ حضور علیہ السلام نے بتایا ہے ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق میری یاد میں لگ جانااپنے جی سے گھڑ کر نسخے نہ بتانا۔ جیسے علماء حق اور مشائخ کتابوں کو پڑھنے کے بعداور نسخوں کو استعمال کرنے کے بعد تمھیں نسخہ بتائیں۔ اس کے مطابق ذکر کرنا۔ جیسا کہ ”حزب البحر“کی شرح میں حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں: ذکر بھی دواؤں کی طرح ہےتریاق کی طرح ہے۔ اس کی بھی ایک(DOZ AGE)ہوتی ہے۔ ایک مقدار ہوتی ہے۔