کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 62
میں حد فاصل کھینچنے کی تمیز بخشتا ہے۔
لفظ((مِّنكُمْ))پرزور دیا کہ دیکھو جو پیغمبر ہم نے بھیجا ایسا نہیں کیا کہ کہیں باہر سے آئے ہوں اور اس نے کہہ دیا ہو کہ میں تمھاری طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ اسی معاشرے میں سے جس میں انسان رہتا ہو،اپنوں میں سے کسی آدمی کا مل جانا جس سے فیضان حاصل ہو،یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت اور احسان ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تو یہی کہا: ((وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ)) یا اللہ ایک تو ان پر نقصان پر فیضان رسالت نازل فرما اور فیض رساں ہو بھی انہی میں سے۔ قرآن اس پرزوردیتا ہے۔
جب رسالت ختم ہو گئی تو بزرگوں نے کہا کہ کسی ولی کا اسی معاشرے میں سے ہونا اللہ تعالیٰ کا اس معاشرے پر بہت بڑا کرم اور اس کی نوازش ہوتی ہے فیض رساں ولی اگر اسی معاشرے میں سے ہو تو بڑی سہولت کے ساتھ اس سے طبعی مناسبت ہو جاتی ہے۔ اس لیے قرآن میں بار بار یہ لفظ استعمال کیا گیا۔ (((مِّنكُمْ))کہ ہم نے جو پیغمبر بھیجا وہ تم ہی میں سے ہے۔ اس بات کو نعمت اور احسان کے طور پر بیان فرما رہے ہیں۔
اس آیت میں سلوک کے تمام مقامات بلکہ ایک مسلمان کو جو باتیں زندگی میں حاصل کرنی چاہئیں۔ ان کا پورا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ حضور علیہ السلام نے جو کا م کیا اس کی اہم کڑیاں کیا تھیں؟
فرماتے ہیں: ((يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا))تمھیں ہماری آیتیں پڑھ کرسناتے ہیں خود قرآن مجیدکی آیتوں کی تلاوت باعث برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فیوض و برکات ہیں جو محض تلاوت سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس دور کی جہاں اور بہت سی محرومیاں ہیں وہاں ایک محرومی یہ بھی ہے کہ لوگوں نے تقریر کے دوران قرآن مجید کی آیتیں پڑھنی