کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 59
اسے ضابطہ تحریر میں لانے کا سامان ہونا چاہیے۔ اس سوچ کے بعد بندہ عاجز نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمے لی اور ”مجلس ذکر“میں اس گفتگو کو ٹیپ کرنا شروع کیا۔ ٹیپ سے اسے قرطاس ابیض کی زینت بنا تا رہا۔ اے کاش یہ فیصلہ بہت پہلے ہوا ہوتا ۔ (( وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا)) ٹیپ سے ساری گفتگو کو نقل کر کے سید صاحب رحمۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ مسودے کی نوک پلک سنواری جاتی۔ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسے(Manuscript)کا نام دیتے تھے۔ نوک پلک جب سنور جاتی تو اس کو دوبارہ تحریر کر کے محفوظ کر لیا جاتا۔ کچھ مسودات ایسے ہیں جن پر خود سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بندہ عاجز کی موجودگی میں نظر ثانی فرمائی اور کچھ ایسے ہیں جن پر نظر ثانی نہ ہو سکی۔ وہ بھی اللہ کے فضل سے محفوظ ہیں۔ جن مسودات پر نظر ثانی کے بعد چھپوانے کا فیصلہ ہوا۔ ”تعلیم و تزکیہ“بھی انہی میں سے ایک ہے۔
ایک آیت کی تشریح مسلسل چار جمعراتوں 22،5،75،15،5،75،8،5،75،1،5،75کی گفتگو پر پھیل گئی ہے۔ میں بیش قیمت اور انمول جو اہر سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند قارئین کرام کے حضور پیش کرتا ہوں۔ وہ خود فیصلہ فرمائیں کہ ایسی تفسیرکہیں اس سے پہلے پڑھی یا سنی ہے۔ یہ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ باقی کڑیاں بھی انشاءاللہ وقت کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آتی رہیں گی تاآنکہ ایک سنہری زنجیربن جائے۔
میں اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے یہ گذارش کرتا رہا کہ آپ قرآن مجید کی تفسیر لکھیں جو منفرد انوکھی اور نوجوان طبقے کے لیے اپنی مثال ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُردو ،فارسی ، عربی انگریزی زبانوں کے علوم ولغت پر عبورعطا کیا ہے۔ ان زبانوں کے شعری اور ادبی سرمائے سے بھی آپ کا دامن پُر ہے۔ آپ جس انداز میں بات کرتے ہیں لوگ اس انداز کو ترس گئے ہیں مگر سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ یہ فرماتے یہ کام بہت کٹھن ہے میری یہ آرزو اگرچہ پوری نہ ہو سکی۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ