کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 58
مال کیا تھا۔ وہ بدیع الزمان تھے۔ اس نسبت سے انہیں علامہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا مگر انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ ”علامہ“کے لاحقہ سے گریز کیا۔ بلکہ شہرکے علاموں کو دیکھ دیکھ کر اس لقب سے انہیں نفرت کی حد تک چڑ تھی۔ فرماتے تھے جس کو قرآن مجید کی دو آیتیں یا چار حدیثیں ازبر ہو جاتی ہیں وہ اپنے آپ کو علامہ کہلوانا شروع کردتیا ہے۔ اُن کی کسر نفسی کی انتہا یہ تھی کہ اپنے آپ کو ہمیشہ دین کا ایک ادنیٰ طالب علم گردانتے تھے۔ اس ضمن میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا تھا۔ مجھے ”لاادری“۔ میں یہ مسئلہ نہیں جانتا۔ کہنے میں جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ ”ادری“ میں جانتا ہوں کہنے میں حاصل نہیں ہوتی۔ سودہ بھی سوری عمر اس کسر نفسی اورانکساری پر برابر قائم رہے اور اخباری علامہ نہ بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مسلسل اور فہم مطالعہ اور شب و روز ذکر الٰہی میں مستغرق رہنے نے اُن پر قرآن مجید کے انوکھے اور اچھوتے مطالب و معانی اور معرفت الٰہی کے اسرارورموزواکردئیے تھے۔ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سےسرشارہو کر وہ احادیث کی ایسی ایسی تشریحات فرماتے کہ انسان حیران رہ جاتا تھا ”مجلس ذکر“چند منٹوں کی گفتگو بہت علمی، مستند ، جامع اور بڑی مربوط ہوتی تھی۔ انداز دل نشین اسلوب خطابی اور ادائیگی اس قدر خوبصورت اور ادبی چاشنی لیے ہوتی کہ آدمی کے دل پر اثر انداز ہوتی۔ حوالے کے بغیر بہت کم گفتگو کرتےتھے۔ بعض اوقات ایک آیت یا حدیث کی تشریح مسلسل تین چار جمعراتوں پر پھیل جاتی تھی۔ مقام افسوس یہ ہے کہ ایک مدت تک اُن کی یہ علمی اور روحانی گفتگو محض سننے سنانے پر منحصر رہی اور بہت بڑا علمی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ احباب کو بہت دیر بعد یہ خیال آیا کہ علم کے لیے بہا گوہر جو سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ لٹاتے ہیں انہیں یوں نہیں رولنا چاہیے بلکہ