کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 53
یہ ہے کہ وہ انسانوں کو بنائے ،ان پرمحنت کرے ۔ ان کی تراش خراش کرے اس کا کام آدمی پیدا کرنا ہے ،ان کی تربیت کرنا ہے۔ اورجب انسان پیدا ہونے لگتے ہیں تو تمام اسباب مسخر ہونے لگتے ہیں۔ جب آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ انسانوں کی تو قدموں پر لاکے اپنے سارے اثاثے کو ڈھیر کردیتے ہیں۔ پھر چندے کی بھیگ ذلت سے نہیں مانگنی پڑتی۔ پھر تو یہ کہا جاتا ہے: ((ما أبقيتَ لأهلِكَ؟)) گھروالوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے یا سب کچھ ہی لیے چلے آرہے ہو۔ دیکھئے یہ سب کچھ پڑھتے ہیں مگر قلب پہ چونکہ حجاب ہے اس لیے کام کا آغاز چندے کی فراہمی سے کرتے ہیں ۔ یاد رکھئے یہ اہل اللہ کی کسوٹی ہے کہ وہ انسانوں کو سنوارتے چلے جاتے ہیں۔ جب وہ سنورتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھلتی ہیں تو وہ خود کہتے ہیں کہ اس کارِخیر میں ہمیں بھی خدا کے لیے شامل کرلیجئے۔ مبلّغ کا کام یہ ہے ((وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ)) اس کا کام یہ ہے کہ انسانوں کی تربیت کرے،ان کو تراشے خراشے،ان کے ظرفوں کو دھوئے جیسے خادم ہوتے ہیں ۔ وہ تو نوکر ہے اس کا کام برتن مانجھنا ہوتا ہے ،وہ تو دھوبی ہے اس کا کام تو کپڑے کو زور زور سے پٹخنا اوردیکھنا ہے کہ صاف ہوا ہے یا نہیں؟