کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 52
بجھ جاتی ہے تو تبلیغ کا کام سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم )پڑھتا ہے مگر بات اُلٹ شروع کرتا ہے۔
کتنے لوگ ہیں کہ فلاں پراجیکٹ بنایا ہے دین کا کام کرتا ہے،لہٰذا چندہ اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تمام انبیاء(علیہم الصلوٰۃ والسلام) کی تاریخ پڑھ کر دیکھئے ۔ یہ انبیاء کی سمت کے مخالف سمت چلنا ہے لطف کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں باربار یہ کہا گیا ہے کہ ہر پیغمبر نے احیاء دین کا کام شروع کیا تو کہا:
((وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ))
تم ناک بھوں میرے وعظ پر کیوں چڑھاتے ہوتم سے کوئی اجرت مانگنے تو نہیں آیا ہوں۔ تم سے چندہ تو نہیں مانگتا ہوں۔
((إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ))
میرا اجر تو اس پر ہے جو سارے جہانوں کو پال رہا ہے ،جو فاسقوں اور فاجروں کو پال رہا ہے ،جو اپنے باغیوں کو پال رہا ہے، میں تو اس کے دروازے پر بیٹھا ہوں اور اس کا کام کررہا ہوں ۔ کیا وہ مجھے نہیں پالے گا؟۔
دیکھئے عجب بات پلٹ گئی ہے جو کام شروع کرتا ہے ،پہلے کہتا ہے چندہ اکٹھا کیجئے۔
دوستو! یہ انبیاء کے طریقے کے بالکل منافی ہے کہ کام کو چندہ کی فراہمی سے شروع کیا جائے۔
یاد رکھیئے،مبلغ کا کام داعی الی اللہ کا کام اور نائب رسولؐ کا کام