کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 51
بولتا ہے۔ مگر روشنی دیتا ہے اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بول کر دعوت دی جاتی ہے ا ورکبھی چراغ کی طرح روشنی دی جاتی ہے کہ ہرچراغ کے فتیلے کو آگ لگتی چلی جاتی ہے اور وہ چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی ((سِرَاجًا مُّنِيرًا))ہے۔ ایسا چراغ جو دوسروں کو منور کرنے والا ہے اور خود چپ ہے تو کبھی دعوت گویا ہوکر دی جاتی ہے۔ کبھی چراغ کی طرح جل کر دی جاتی ہے۔
دوستو!یہ مت خیال کیجئے کہ اگر آپ وعظ نہ کرسکے تو دعوت کا کام ہی نہ ہوسکے گا۔ ایسے فقیر بھی ہیں جو چراغ کی طرح جلتے ہیں اور اس فقیر کے پاس بیٹھنے سے روح کے چراغ کا فتیلہ لودے اٹھتا ہے اور اصل کام تو دوستو اس فتیلے کا جلنا ہے ۔ کتنے وعظ ہیں جنھیں سننے کے بعد بھی فتیلہ گیلا رہتا ہے ۔ مجھ سے پوچھیئے کہ کتنے علماء کے وعظوں میں ہم گئے اور فتیلہ جو تھا وہ جل نہ سکا او رکتنے فقیر تھے جو خاموش تھے ان کے پاس بیٹھے اور فتیلہ سلگنے لگا۔ روشن ہوگیا اور ((سِرَاجًا مُّنِيرًا))کی تفسیر ان کی محفل میں بیٹھنے سے سمجھ میں آگئی۔
دوستو!اللہ کی طرف بلانے کا کام کبھی دوستی سے ہوتا ہے،یاری سے ہوتا ہے۔ محض پیار سے ہوتا ہے کبھی گویا ہونے سے ہوتا ہے کبھی چپ رہنے سے ہوتا ہے۔
ہاں تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ یہ بڑی غلط فہمی ہے جو مولویوں کو پیدا ہوئی کہ کام شروع کرتے ہیں تو چندہ فراہم کرنے سے دیکھئے کیسی مت پلٹ جاتی ہے انسان کی اور بڑے بڑے جید علماء کی،کہ جب دل کی بتی