کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 50
چٹا سفید ہوجاتا ہے۔ یا اللہ! تو میرے دل کی سیاہیوں کو دھوڈال۔ مبلغ کا کام اپنے وجود سے کھوٹ کو نکال دینا اور انوار الٰہی سے وجود کو منور کرنا اور کتاب وحکمت کا فہم حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا،پھر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ہے۔ یہ سمجھنا غلط فہمی ہےدوستو!کہ دعوت الی اللہ ، کا معنی وعظ ہی ہے۔ یہ بڑی اہم باریک بات ہے۔ یہ نہ خیال کیجئے کہ دعوت الی اللہ کا معنی صرف وعظ کرکے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ اللہ کی طرف بلانے کا نام کبھی گفتگو سے ہوتا ہے کبھی دوستی سے ہوتا ہے،کبھی یاری سے ہوتا ہے۔ محض چار دوستوں سے بے تکلف گفتگو سے ہوتا ہے اور کبھی خاموش اہل اللہ چراغ کی طرح جلتے ہیں اور زبانیں چپ ہوتی ہیں اور جیسے چراغ کے قریب جس چراغ کا بھی فتیلہ آتا ہے وہ چراغ جلنے لگتا ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اہل اللہ چپ ہوتے ہیں اور ان کے نور سے دوسروں کی روحیں منور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ جو فرمایا: ((وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا)) یعنی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گویاہوتے تھے تو اس وقت دعوت الی اللہ نطق وگویائی سے دے رہے ہوتے ہیں اور جب چُپ ہوتے تھے تو آفتاب کی کرنوں کی طرح لوگوں کی میل کچیل کو چھانٹ رہے ہوتے تھے۔ ایک اندھا آدمی کہتا ہے کہ بولتے کیوں نہیں،چراغ کب