کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 43
ہے تو وہ پھر تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اس بات کو ذہن پر رکھتے ہوئے سونے پر بھی اجروثواب مرتب ہوتا ہے۔ اس نیت سے سورہنا کہ جب سوکر اٹھوں گا توتازہ دم ہوکر اس کی غلامی کے حقوق ادا کرونگا،اس ریاضت سے ہزار درجہ افضل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر کی جائے۔ تو یہ کہنا کہ میں سوؤنگا نہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں ہے۔ اورتمام مقامات جو طے ہوتے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں فنا ہونے سے حاصل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بارہا عرض کرچکا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اولیاء کا اتفاق ہے بہت سے صحابی گنے جا سکتے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ ریاضت کرتے تھے،وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں فنا ہوگئے تھے،اس لیے جو مقام صدیقیت ان کو حاصل ہوا کسی دوسرے شخص کو حاصل نہ ہوسکا۔ اصل بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ،ان کے افعال میں،ان کی سنتوں میں فنا ہونا ہے۔ گو اس میں راحت ہی کیوں نہ ہو بلکہ سنت تو سراسر راحت ہی ہے دوستو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ فرمایا کرتے تھے:۔ جب دوباتیں تمہارے سامنے آئیں ،ایک کٹھن ہو،تکلیف دہ ہو اور دوسری آسان ہوتو آسان چناکرو۔ فرمایا ((إِذَا ابْتُلِيَتْ بِبَلَائينِْ فَلْيَخْتَرْ اَهْوَ نَهُمَا)) جب دو آزمائشوں میں پڑ جاؤ تو جو آسان راستہ ہے اس کو چن لو۔ خود اپنے آپ کو جان بوجھ کر اذیت میں نہ ڈالو۔ کبھی فرمایا:۔