کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 41
دوسرے نے کہا میں بلاناغہ روزہ رکھوں گا۔ صائم الدھر ہوجاؤنگا تیسرے نے کہا،میں نکاح نہیں کروں گا۔
ابھی یہ گفتگو ہورہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ جب یہ بات ان کے سامنے دہرائی گئی تو فرمایا:
((وَاللَّهِ إِنِّي لأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ))
میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اللہ نے اپنی خشیّت اور اپنا تقویٰ تم سب سے زیادہ مجھے عطا فرمایا ہے:
((وَ إِنِّي أَصُومُ وَأفْطِرُ))
میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز بھی ہوتا ہوں۔
((وَأَنَا أُصَلِّي وَأَرْقُدُ))
میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سو بھی جاتا ہوں۔
((وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ))
میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ ۔ ۔
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
جو شخص میری سنت سے روگرداں ہوتا ہے ا س کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ؟
حقیقت میں معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی یہ سمجھتا ہے کہ شاید”تعذیب نفس“ سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز مقام صبر ہے اور نیند مقام شکر ہے۔ اسی طرح روزہ مقام صبر ہے اور افطار مقام شکر ہے۔ وہ آدمی جاہل ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ صرف مقام صبر ہی سے قرب کی راہ حاصل ہوتی ہے۔ صبر اور شکرسے یکساں اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں احادیث میں روزے کی اتنی فضیلتیں آئیں بالکل اسی طرح سحری کھانے کی بھی فضیلتیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم