کتاب: تقاریر وخطابات سید ابوبکر غزنوی - صفحہ 37
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی فرمارہے ہیں کہ ”انا الحق“ کے مقام سے مقام عبدیت بہت بڑا ہے متعدد جگہوں پر یہ بات فرمائی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بہت سے سالکوں کو ٹھوکر لگی ہے اور مقام محبوبیت کو اونچا سمجھاہے ۔ اس مرد فقیر پر اللہ کا عجیب کرم تھا کہ ہر جگہ مقام عبدیت کا ذکر فرماتے ہیں۔ ”عبد“ وہ ہوتا ہے جس کی اپنی مرضی اللہ کی مرضی میں فنا ہوچکی ہو یہ زمانہ جاہلیت کی شاعری میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ الطريق المُعبَّد..........جیساکہ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے مفردات میں بھی لکھا ہے۔ ۔ ۔ وہ راستی جو بالکل ہموار ہو اس میں کوئی اونچ نیچ نہ ہو اس کو”الطریق المعبد“ کہتے ہیں اور وہ اونٹ جو بدمستی نہ کرے اور سیدھا چلے ہموار(مطیع) ہوکر اس کو بھی(البعير المعبد)کہتے ہیں۔ ......تو وہ ہے جس کے دل میں اونچ نیچ نہ ہو اور ہوس ختم ہوگئی ہو اور جس کا جی اللہ کے سامنے بالکل جھک گیا ہو اور ہموار ہو اور اس کے تمام احکامات پر((سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا))کہتا ہو اور بلاچون وچرا اس پر عمل کرتا ہو ۔ ((ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)) کی کیفیت طاری ہو کہ دل میں حکم سن کر کوئی تنگی محسوس نہ ہو،دل ودماغ کی ہم آہنگی سے کہے کہ بالکل بجا ہے میں ایسے ہی کروں گا اور اس کی رضا میں اپنی رضا کو فنا کردے ،اسے کتاب اللہ کی بولی میں ”عبد“ کہتے ہیں۔ جیسا کہ